2018 کا الیکشن پی ٹی آئی کی فتح لے کہ آیا۔ عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد آخر کار ان کو وزیر اعظم کے منصب پہ فائز کر گئی۔ وہ لوگ جو ان کا مذاق اڑاتے رہے، ٹھٹھہ کرتے رہے، جو" میراثی کا بچہ چوہدری نہیں بن سکتا " کی بیہودہ جگتیں لگاتے رہے، ان سب کو منہ کی کھانی پڑی۔ اور خان صاحب جو بننا چاہتے تھے انہوں نے مخالفین کے سینے پہ مونگ دل کے، بن کے دکھا دیا۔
اس کامیابی پہ کئی قسم کے الزامات ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا کام ہے، اگرچہ 70 سال جوتے کھانے کہ بعد لوگوں کے ذہنوں میں اسٹیبلشمنٹ کا خاکہ بہت واضح ہو گیا ہے لیکن میں یہ فرض کر لیتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کوئی مافوق الفطرت چیز ہے جس کے کئی ہاتھ ہیں جن سے بیک وقت وہ کئی قومی فریضے سر انجام دیتی ہے۔ ہر ہاتھ سے وہ کچھ نہ کچھ کر رہی ہے، سات ہاتھ چھوڑ دیں کہ "معیشت" یا "اکانومی" ہمارا موضوع نہیں ہے۔ آٹھویں سے خارجہ پالیسی، نویں سے داخلہ پالیسی، دسویں سے ایوان بالا، زیریں اور مزید زیریں، گیارہویں سے انصاف کے ترازو کا توازن۔ ہاتھ تو پورے ہو گئے لیکن کام ایک اور بچ گیا۔ "مناسب اور قابل قبول سیاسی ڈھانچہ "۔ کیوں کہ اس کے بغیر باقی کے سارے ہاتھوں پہ سوال اٹھنے لگتے ہیں۔
یہ بہت اہم کام تھا جو اس الیکشن میں کافی حد تک ٹھیک رہا۔ اور ایک مناسب صورت حکومت وجود میں آئی۔ ایک خود پسند، جاہ پرست وزیر اعظم، معدودے چند مناسب لوگوں پہ مشتمل حکمران پارٹی، اخلاقی پستی کی شکار کابینہ، کمزور ریموٹ کنٹرولڈ بیساکھیاں، بکھری ہوئی بغیر گلہ بان کے اپوزیشن، اور اس اپوزیشن میں ٹینٹوے سے پکڑی ہوئی ایک بڑی پارٹی، جو ہر اہم موقعے پہ نیب کی ایک پیشی کی مار ہے۔ اس سے زیادہ مناسب حالات شائد ہی کبھی اس ملک کو میسر آے ہوں۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم اس سنہرے دور میں جی رہے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو غور سے دیکھیں، تا کہ کل جب ہم سے سوال ہو تو ہم ایسے خالی نظروں سے نہ دیکھیں جیسے ہمارے بزرگ سقوط ڈھاکہ کے بارے سوال پہ لاعلمی سے ہونقوں کی طرح دیکھتے تھے اور ہم ان کی اس نابالغ نظری پہ افسوس کرتے تھے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اگلی نسل کے جواب دینے کے لئے ان حالات کو غور سے دیکھیں۔
عمران خان کی سب سے بڑی طاقت نوجوان، اور ایسے ادھیڑ عمر جو نوجوان کہلانے کے شوق میں سوشل میڈیا پہ نوجوانوں کی بے ہودگی میں ذاتی تجربوں کو شامل کر اس کو تقویت پہنچانے کا باعث بنتے تھے۔ بلاشبہ اس حکومت کے لانے میں ان کے مسلسل جھوٹے پروپیگنڈوں اور خوابوں کی آبیاری کا بہت بڑا حصہ ہے۔ حکومت کے وجود میں آنے کے بعد ان کو اپنے نظرئیے، مہم یا افواہ سازی کے کھوکھلے پن کا احساس پہلے دن ہی ہو گیا۔ ان کو عمران خان کی متلون مزاجی کا بھی پتہ تھا اور ان کی ٹیم کی ذہنی صلاحیتوں کا بھی۔ لیکن باقی ماندہ عزت نفس کے لئے، اور اپنی ہی دوائی چاٹنے سے محفوظ رہنے کے لئے ایک حل نکالا۔ "ہم اس حکومت کی اپوزیشن کریں گے"
اس طرح سے ایک کمزور دفاعی حصار بنانے کی کوشش کی۔ اس کا بھانڈا متحرک حکومت نے پہلے ہی ہفتے میں بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔ پے در پے ایسے واقعات ہوئے جن کی فحش الفاظ میں مذمت ہم اس سوشل میڈیائی فوج سے پچھلے 5 سال سے سنتے آئے تھے۔ بعینہہ ایسے واقعات پہ ردعمل دینا ان کے لئے مجبوری بن گیا۔ ابھی تو "ہم اپوزیشن کریں گے" والے دعوے کی مہندی بھی نہ اتری تھی کہ اس نامعقول حکومت نے پہاڑ سا امتحان کھڑا کر دیا۔ پہلی پھیرا کراچی کے ایم پی اے پہ تو خوب آئے کہ وہ نسبتا غیر اہم تھا۔ لیکن سلیم صافی کے وزیر اعظم کی کپتی عورتوں والی حرکت سامنے لانے پہ، جو کہ حکومت کے کسی بھی آدمی کی طرف سے چیلنج کرنے پہ چند لمحوں میں تحلیل ہو جاتا، پہ یہ ٹیم اپوزیشن کا لبادہ اتار کہ دفاع میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور اس شخص کی یاد تازہ کر دی جس نے بیگم کے حجلہ عروسی سے باہر آ کےسوال کرنے پہ کہا تھا کہ "پرانی محبتیں تو نہیں بھول سکتا نا"
سلیم صافی کی اپنے تیئں تذلیل کرنے کہ بعد عاصمہ شیرازی پہ حملہ آور ہوئی یہ نوخیز 'پھسپھسی اپوزیشن"۔ یہاں تک ٹھیک تھا کہ سالوں ایک فاشسٹ پارٹی کو جہاد سمجھ کر سپورٹ کرنے سے انسان جس پستی کا شکار ہوتا ہےاس سے واپسی آسان نہیں، امید تھی کہ بہتری آجائے گی۔ لیکن اس کے بعد ایسے واقعات ہوئے جو توہین عمرانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب یہ "پھسپھسی اپوزیشن" اپنا عروسی غرارہ اتار کے الف ہی سامنے آگئی۔
ہیلی کاپٹر کے استعمال پہ ایسی ایسی دلیلیں سامنے آئیں کہ سائنسی ماہرین تو ان کے ساتھ رابطہ کرنے پہ مجبور ہوئے ہی، سادگی کی عظیم مثال ناروے کے وزیر اعظم جو اپنی "سہراب" سائکل کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہوں نہ ہوں اس یوتھ برگیڈ کے جد امجد قرار پا چکے تھے، نے بھی اپنی وزارت صنعت و حرفت کو طلب کر لیا اور ان کی سرزنش کی کہ میں اتنے سالوں سے سائیکل پہ خجل ہو رہا ہوں، اور پاکستان میں ایک سائنسدان وزیر اعظم 55 روپے میں مطلب کہ ڈالر کے نصف میں دفتر جا رہا ہے۔ اتنے کا تو میں روزانہ سائیکل کی چین کو تیل دیے دیتا ہوں۔ تاحال تمام وزارت وزیر اعظم ہاوس کے سامنے مرغا بنی ہوئی ہے۔ "پھسپھسی اپوزیشن " کا یہ پہلا عملی مظاہرہ تھا الٹی قلابازیاں لگانے کا۔
اس کے بعد اس "پھسپھسی اپوزیشن" نے "سسرال جا کہ دکھایا"۔ ڈی پی او نے اس ملک کے مرد اول خاور مانیکا کو روکنے کی جسارت کی جس پہ ان کو وزیر اعلٰی ہاوس میں بلا کہ مانیکا صاحب کے در پہ حاضری اور معافی مانگنے کا حکم جاری ہوا انکار کرنے پہ تبادلہ کر دیا گیا۔ بظاہر ڈی پی او کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا کہ مانیکا صاحب کے در پہ حاضری کے فیض تو اب پورے پاکستان کے علم میں ہیں۔ لیکن ان کی اس گستاخی کے بعد ہمیں اس "پھسپھسی اپوزیشن " کے ذریعے پتہ چلا کہ ڈی پی او تو در حقیقت ایک نااہل، جھوٹا افسر تھا جس پہ پہلے ہی کئی کیس تھے اور اس کو کوئی 6 مہینے پہلے کے جھوٹ پہ تبادلہ ہوا ہے۔ معرفت والوں سے گستاخی کرنے کی غلطی کا احساس تو ڈی پی او کو ہو چکا ہو گا لیکن اس "پھسپھسی اپوزیشن " کے 7 دن پہلے والے دعوے کے غبارے سے گندی ہوا وہ نکال گئے۔
دانستہ طور پہ شیخ رشید کے دو کارناموں، ریلوے کے ایک افسر سے "شٹ اپ" سننے، اور راجہ بازار میں اپنی جہازی سائز کی گاڑی، پروٹوکول سمیت گھسانے کے کوشش میں موٹرسائکلوں کے گرائے جانے والے واقعات کے بعد اسی افسر کی نااہلی کے چشم کشا انکشافات، اور راجہ بازار میں ایک دم سے سامنے آنے والے غیر قانونی تجاوزات کے بارے میں اس "پھسپھسی اپوزیشن " کے جہاد کو شامل نہیں کیا گیا کہ یہ ان کی ذیلی ذمہ داری ہے۔ ابھی فیض الحسن چوہان کے "اربوں" سے کھلواڑ پہ اپوزیشن کا انتظار ہے۔ "پھسپھسی اپوزیشن " کا-