جب سے نواز شریف کا ڈان نیوز میں چھپنے والا انٹرویو سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ ایک طوفان کھڑا ہو گیا اس "انکشاف" سے کہ ہمارے نان سٹیٹ ایکٹرز کسی دوسرے ملک میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ اس میں شک تو پہلے بھی کوئی نہیں تھا کہ ہم ایک منافق معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا پتہ ہے لیکن ہم اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہمیں بطور معاشرہ اپنے گناہوں کا اندازہ ہے لیکن ہم اس کو قالین کے نیچے دے کہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ بات یہاں تک رہتی تو شائد خیر تھی لیکن اس زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھی ہمیں ایسا سمجھتی ہے جیسے ہم سوچتے ہیں نہ کہ جیسے ہم ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے خطرے کی غیر موجودگی کی امید اگر ہم جیسے کم فہم اور کم علم لوگوں کو ہو تو کچھ سمجھ آتا ہے۔ لیکن اگر اس کا شکار دانشمند طبقہ بھی ہو جائے تو پھر خطرے کی گھنٹی ہے۔
ہمارے ایک محترم کا اس موضوع پہ لکھا نظر سے گزرا۔ جو کہ ٹھوس موضوعات پہ ٹھوس رائے کے اظہار کے لئے جانے جاتے ہیں اور سیاسی نظریات کے لحاظ سے ان کے زیادہ قریب ہیں جن کا تعارف زبان پہ قابو کم ہونا ہے۔ لیکن ان کا کنٹرول بہت بہتر اور شست زباں ہیں۔ انہوں نے سیرل المیڈا کے ڈائنا میٹ سے ہم لوگوں کو آگاہی دی ہے کہ انڈیا ان الفاظ کو کیا اہمیت دے گا۔ اس بات کی چنداں اہمیت نہیں کہ "ہمیں " اپنا گھر ٹھیک کرنے کے لئے، اپنی سمت درست کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے سارا زور اس پہ ہے کہ انڈیا کیا کرے گا۔ کسی کو یہ فکر نہں کہ سمت درست کرنے میں پہلا قدم غلطی کا اعتراف ہی ہوتا ہے۔
نواز شریف نے اس انٹرویو میں کچھ ایسا کہا:
ہم (مملکت پاکستان) نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ قربانیاں دینے کے باوجود ہمارا موقف دنیا میں رد کیا جاتا ہے اور افغانستان کے موقف کو پذیرائی ملتی ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
ملک میں عسکری تنظیمیں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیجیے لیکن کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟ مجھے بتائیے کہ ہم ان کے خلاف ٹرائل مکمل کیوں نہیں کر سکتے۔ (اشارہ راولپنڈی میں ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کے خلاف مقدمے کی جانب ہے جو ابھی التوا میں ہے)
یہ معاملہ ہمارے لیے قطعی ناقابل قبول ہے۔ اسی کے خلاف تو ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن نے یہی کہا تھا، صدر شی جن پنگ نے یہی کہا تھا۔ ہماری جی ڈی پی شرح نمو 7 فیصد ہو سکتی تھی جو نہیں ہوسکی۔ ”
اگرچہ کسی کے بیان کو توڑ کے آسانی سے اپنا مطلب نکالا جا سکتا ہے لیکن چلیے ہم بھی اس بیان کو انہی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
1۔ ہم (پاکستان) نے خود کو تنہا کر لیا ہے
یہ الفاظ میرے یا فیس بکی دانشور کے نہیں ہیں۔ اس بندے کے ہیں جو 2012 والے پاکستان کو اس مقام پہ لے آیا ہے کہ روس اور چائنہ آپ کے ساتھ منصوبے بنا رہے ہیں اور فوجی مشقیں کر رہے تھے لیکن ذرا یاد داشتوں کو تازہ کریں۔ آپ دہشت گرد قرار دئیے جانے کے قریب تھے۔ پچھلے پانچ سال میں بہتری آئی ہے لیکن پھر بھی ہم اس حد تک تنہا ہیں کہ ایف اے ٹی ایف میں چائنہ بھی سپورٹ نہ کرسکا اور اس نے بھی آپ کے نان سٹیٹ ایکٹرز کو کنٹرول کرنے کا کہا۔ ان کو کنٹرول کریں گے تو اپ کی ریٹنگ بہتر ہو گی۔ مگر آپ تو ان کا نام لینے پہ سیخ پا ہو رہے ہیں تو ان پہ قابوکیا خاک پائیں گے اور جب تک ان کا نام پاکستان کے نام کے ساتھ جڑا ہے اور وہ پاکستانیوں کو جہاد کے لئے ایکسپورٹ کر تے رہیں گے۔ اس وقت تک پاکستان پہ سوالیہ نشان لگا رہے گا۔ نواز شریف آپ کو اس تنہائی کی وجوہات اور بطور ریاست آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کررہا ہے۔ جب تک ان غلطیوں پہ قابونہیں پائیں گے۔ تنہائی کی تلوار لٹکتی رہے گی۔
2-۔ ہمارا موقف دنیا میں رد کیا جاتا ہے اور افغانستان کے موقف کو پذیرائی ملتی ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے
"گویا پاکستان کا سابق وزیراعظم دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ پر اس کا کنٹرول نہیں "۔ جی واقعی اسٹیبلشمنٹ پہ وزیر اعظم کا کنٹرول نہیں ہے کیا آپ کو اس پہ کوئی شک ہے ؟ وقت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سول وزیر اعظم سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اور یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ ایک دفعہ پھر ریت میں سر دے کہ انکار کرنا چاہتے ہیں تو آپ حق رکھتے ہیں۔ مگر بہتر ہے کہ حقیقت کا سامنا کریں۔
3۔ ملک میں عسکری تنظیمیں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیجیے۔ ۔ ۔
منافقت سے ہمیں باہر آنا ہو گا۔ ہمیں اقرار کرنا ہو گا کہ عسکری تنظیموں کو ہم استعمال کرتے رہے ہیں۔ کشمیر میں بھی اور افغانستان میں بھی۔ وہ ہمارے دفاعی حصار کا اہم حصہ رہے ہیں۔ مدتوں سے ہم اس پالیسی پہ عمل پیرا ہیں کبھی ہم ان کو مجاہدین کا نام دیتے ہیں کبھی طالبان۔ ان کو ہم "تقریبا" سرکاری طور پہ اون کرتے رہے ہیں۔ بلکہ ہمارے سرکاری مہمان کا درجہ پاتےرہے ہیں۔ ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ ان کو ملک کے اندر اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتی ہے۔ اگر ایک وزیر اعظم چاہتے ہوئے بھی ان کو روک نہ پارہا ہو تو اسے حق نہیں کہ وہ اپنا لہجہ ہی "مرا مرا" رکھ سکے۔ ایک تو ملک کو آگے بڑھانے کے لئے اس طوق کو بھی اٹھانا ہے جس کو اسٹیبلشمنٹ نے گلے میں ڈالا اور پھر اس کا ذکر تروتازگی سے نہ کرنے کا بھی گلہ۔
4-۔ لیکن کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟
" اس ریاستی موقف پر کوئی فرد، کوئی ادارہ، کوئی ملک یقین کرے یا نہ کرےلیکن سٹیٹ آف پاکستان کا موقف یہی ہے اور بحیثیت سابق وزیر اعظم آپ کو بھی حلف کے تحت یہی موقف رکھنا ہوگا۔ "۔ ۔
مطلب ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے موقف کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ اور یہ ہے بھی جھوٹ پہ مبنی۔ پھر بھی ہم نے یہی کہنا ہے۔ یا منافقت تیرا ہی آسرا۔ چلیں صحیح ہے ایسا ہی سہی۔ لیکن یہ حلف والی بھی خوب کہی۔ وزیر اعظم اپنی پالیسی نہیں بنا سکتا۔ اسے ماتحت ادارے کے ایک ہوائی منصوبے پہ عمل کرنا ہو گا جس سے ملتے جلتے منصوبے کے الٹ ہونے سے ہم 15 سال ناک سے لکیریں نکال رہے ہیں۔ اس کے ماتحت ادارے اس کو آنکھیں دکھا سکتے ہیں۔ بلکہ اس ملک میں تو وزیر اعظم کو سیکورٹی رسک قرار دے کہ اس کو حساس اداروں سے دور رکھ سکتے ہیں۔ پھر یہ "حلف " کس چڑیاکانام ہے ؟
ہمارا موقف کیا تھا ؟ اس میں کیا غلطی ہے یہی تو بتا رہے ہیں آپ کو ؟ یہی تو احساس دلا رہے ہیں مگر آپ وہی لکیر کے فقیر۔ آپ طعنہ دے سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔ آپ حق بجانب ہیں۔ لیکن ہمارا وزیر اعظم اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ اور یہی المیہ ہے۔
4۔ لیکن کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟
آپ نے بناے ہیں یا نہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ سرحد پار کرنے سے آپ نے روکنا ہے۔ یہی مطالبہ ہم افغان حکومت سے کرتے رہے ہیں اور وہ ہم سے۔ لیکن اگر آپ یہ آمد ور فت روک نہیں پا رہے تو آپ ناکام ہیں - یہ تو ابھی محتاط گفتگو ہے حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سوال اس سے کہیں سخت اور واضح ہونا چاہیے تھا کہ بھائی یہ سلسلہ بند کرنا ہے تو ترقی کی طرف جانے کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ ورنہ تباہی کی طرف سفر ہے۔
5۔ مجھے بتائیے کہ ہم ان کے خلاف ٹرائل مکمل کیوں نہیں کر سکتے۔
بار بار ایک ہی بات کرتے مجھے بھی شرم آتی ہے کہ وزیر اعظم کا اختیار ان معاملات میں نہیں ہے۔ وہ بے بس ہے اور بے اختیار ہے۔ اگر آپ کو یہ نالائقی صرف نواز شریف کی لگتی ہے تو جمالی سے پوچھ لیں وہ کتنا با اختیار تھا۔ ملا ضعیف اور عافیہ صدیقی کو اس کی مرضی سے بیچا گیا یا حکم کہیں اور سے آیا تھا۔ گیلانی سے پوچھ لیں کے اس کے اختیار میں تھا کہ وہ کسی نان سٹیٹ عنصر کے خلاف کوئی ایکشن لے سکے۔ اگر نہیں تو پھر جن کے اختیار میں تھا انہی کی طرف اشارہ ہے۔ وہی یہ فیصلے کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی ابھی تک، تو تھوڑا مزید ماضی کے واقعات پہ غور کریں۔
6۔ یہ معاملہ ہمارے لیے قطعی ناقابل قبول ہے۔ اسی کے خلاف تو ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔
بطور سیاستدان وہ اس بات کہ خلاف ہے اور ان کا خیال ہے کہ ہمیں نان سٹیٹ ایکٹرز کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ ان کا ٹرائل کرنا چاہیے جو اس طرح کے کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر پا رہے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی۔ اور اس سپورٹ کو جس کا بطور ریاست وہ دفاع نہیں کر پاتے، ختم کرنا چاہتے ہیں۔
7۔ صدر پیوٹن نے یہی کہا تھا، صدر شی جن پنگ نے یہی کہا تھا۔
ایف اے ٹی ایف میں امریکہ کی قراردادجس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی گئی تھی، اس کے خلاف چائنا، رشیا، سعودیہ اور ترکی نے ووٹ دیا۔ دوسرے دن چائنا، رشیا اور سعودیہ نے یہ سپورٹ واپس لے لی۔ سعودیہ تو چلیں امریکہ کہ زیر اثر ہے، کیا آپ کو سمجھ نہیں آرہی کہ چائنا بھی آپ کی سپورٹ واپس لینے پہ مجبور ہو رہا ہے جس کا بزنس انٹرسٹ ہے اس ملک میں۔ اربوں کھربوں روپے کی انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے اس نے اس ملک میں۔ اور اس کمزوری اور غلطی کی نشاندہی کوئی پاکستانی کر دے تو وہ غدار قرار دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں صرف ایک ترکی آپ کا حامی رہ گیا۔ اور آپ بضد ہیں کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ کسی کو نہیں پتہ اور ہم "نان سٹیٹ " ایکٹرز کا راگ الاپتے رہیں گے اور دنیا کو سمجھ نہیں آرہی۔ اور یہ کون ہے جس نے ہمارا راگ خراب کر دیا ہے۔ یہ کون غدار ہے جو ہمیں بتا رہا ہے، آنکھیں کھولو، سر ریت میں سے نکالو۔ خطرہ سر پہ ہے، کچھ کر سکتے ہو تو کر لو۔
آخر میں ایک درخواست، یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کا نقصان ہو گا تو ہم نہیں رہیں گے۔ ہماری جو بھی پالیسی تھی وہ غلط ثابت ہو چکی ہے۔ برائے مہربانی اس پہ ڈٹ نہ جائیں بلکہ اس کو درست کرنے کی کوشش کریں۔ جن لوگوں کو اللہ نے قلم کی طاقت دی ہے وہ اس ملک کے مفاد میں استعمال کریں نہ کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے۔ نواز شریف کو بھی شائد سیاسی طور پہ اس بیان سے کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن کیا اس کا بیان جھوٹ ہے ؟ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کسی کو انکار کرتے نہیں دیکھا۔ زور ہے تو صرف یہ کہ ہم اس سچ کو جھوٹ قرار دے رہے ہیں تو نواز شریف کیوں قرار نہیں دیتا۔ سچ کبھی برا نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ بول کے تو دیکھیں، آگے مشکل ہو سکتی ہے لیکن بہتری کی طرف پہلا قدم ضرور ہو گا۔