یہ کھیل نیا نہیں ہے، ایوب خان کےپہلے دور سے کھیلا جا رہا ہے۔ طاقت حاصل کرنے کے لئے اور بعض حالتوں میں اقتدار کے لئے، سیاستدانوں کو بلیک میل کرنا، عوام کے ذہنوں سے کھیلنا۔ اور اس کھیل میں ان کے دست و بازو رہی عدالت عظمٰی۔ تو اب کی دفعہ نیا کیا ہے۔ یہ سلسلہ تو بہت دفعہ ہو گیا، کہانی بار بار دہرائی گئی۔ پھر اس بار نیا کیا ہوا کہ کھلاڑی کپڑے اتار کر میدان میں کھڑا ہو گیا۔ بغیر کسی شرم اور حیا کے۔ اب کی دفعہ ایک پارٹی کھڑی ہو گئی اور خطرہ ہے کہ جمہوریت کے چاہنے والے بھی ان کے پیچھے کھڑے ہو جائیں گے۔ پھر احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے۔ غصہ عقل پہ حاوی ہورہا ہے۔ لیکن اتنا غصہ کس بات کا ہے ایک آئین کے غدار کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا یا ایک منشی ٹائپ کے وزیر کا آڈٹ کروانے کی خواہش کا۔
وجہ جو بھی ہے، اس نے عقل و دانش سے اتنا بیگانہ کر دیا ہے کہ سانڈ ادھر ادھر ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ یہ اس ملک کے لئے اچھا نہیں ہے، جو ہو رہا ہے اس کا پتہ سب کو ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب بولنے والے بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ کبھی بلوچستان بولتا تھا، سندھ بولتا تھا، پھر سرحد بولنے لگا۔ اب ایک جماعت بولی، پھر چند سیاستدان۔ ۔ ۔ ۔ ایک جج بول پڑا۔ ۔ ۔ خطرے کی گھنٹی اگر اب بھی نہیں بجی تو سنیے خبر ہے کہ کل جی ایچ کیو کے قریب ایک جلوس نکلا ہے جو نام لے لے کہ نعرے لگاتا رہا۔ بھلا کس کا ؟؟
میں لعنت بھیجتا ہوں ان اشخاص پہ جو اس پہ خوش ہوں گے۔ مجھے ذاتی دکھ ہے کہ میں نے ساری زندگی اس ادارے کا نام عزت سے لیا ہے اور اللہ نے میرے والد کو رزق اس ادارے کی طفیل عطا کیا۔ لیکن کیا ہمارا افسوس کافی ہے ؟ کیا ان کو نہیں چاہیے کہ وقت کی آواز کو سنیں ؟؟ کیا کوئی بھی ایسا بندہ نہیں اس ادارے میں جو ان کو وہ سنائے جو ان کے کان سننا نہیں چاہتے لیکن حقیقت ہے ؟؟؟
صحیح ہے کہ سیاسی مخالفین خوش ہیں کہ گلیاں سنجیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا ان کو اجازت ملے گی اس میں آزاد پھرنے کی ؟؟؟ سیاست حکومت حاصل کرنے کے لئے ضرور کی جاتی ہے لیکن اس پہ قائم آپ نے عوام کی طاقت سے رہنا ہوتا ہے اگر عوام کی بجائے کسی اور کے کندھوں پہ بیٹھ کے آئیں گے تو زیادہ دن نہ حکومت کر سکیں گے اور نہ ہی ان کی خواہشات پوری کر سکیں گے۔ اور نتیجہ یہی ہو گا کہ ہماری زندگی کے چند سال ضائع کرکے آپ بھی وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ جمہوریت اور آمریت کی آخری جنگ 2018 اور 2023 کے درمیان والی حکومت میں لڑی جائے گی۔ لیکن مشرف کے عدالت سے مفرور ہونے، دھرنے میں امپائر کی انگلی کو فالج ہونے اور 800، 900 بچوں کے ایک دن میں اغواء ہونے سے بچانے کے لئے "شکریہ راحیل شریف" کو ایک سپرمین کی طرح آنے کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے اس کو فاسٹ فارورڈ کر دیا گیا اور اس کا آغاز 2013 اسمبلی سے ہو گیا۔
ہماری توقع کے عین مطابق اور ان کے لئے خلاف توقع مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دو جوکروں کو مختلف محاذوں سے آگے بڑھایا گیا لیکن وہ صرف قلابازیاں لگانے اور دانت نکالنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ جھنجھلاہٹ میں مائیکرو لیول پہ مینجمنٹ کے شوق میں کپڑے اتارنا شروع کیے۔ اور جب ایک 67 سال کے دو بائی پاس سے گزرنے والا بوڑھا بھی خوف زدہ نہ ہوا نہ اس کی برگر بچی جو نازوں میں پلی ہوئی تھی وہ بھی نہ ڈری تو انا کی اس چوٹ نے ان کو مزید کھلنے پہ مجبور کر دیا ا ب تو مخالفین بھی دبی دبی آوازوں میں بول رہے ہیں کہ اتنے کی خواہش تو ان کی بھی نہیں۔ ان کی سادگی کہ ان کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایسا ہو رہا ہے۔ اصل میں انا کی تسکین کے لئے ہو رہا ہے، کل روالپنڈی سڑکوں پہ جس کا ننگا رقص ہوا۔
یہ آواز اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے آئی ہے۔ وقت ہے آنکھیں کھول لیں۔ واپس جانا مشکل ہے، انا کو چوٹ لگتی ہے لیکن ایک دن جانا ہی ہے تو آج کیوں نہیں۔ اسی میں ملک کی بہتری ہے کہ ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھے۔ ایک دوسرے پہ اعتماد کرنا پڑے گا ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور ملک ایک دفعہ پھر پیچھے چلا جائے گا۔