انسان کی فطری کمزوری ہے کہ جو چیز کانوں کو بھلی لگے، اس کو دل تسلیم کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے اور اگر موٹا دماغ سہل پسند، ذہنی استعمال میں ذخیرہ اندوزی کا قائل ہو توپھر کانوں کو بھلی لگنے والی بات کتنی ہی جھوٹی اور حقیقت سے دور ہو انسان کو حقیقت لگتی ہے۔ ایسے ہی "حقیقت پسند" آج کل اپنی عقل و دانش کے موتی بکھیر کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مداری نے انہیں طاقت کی دوائی کے نام پہ جو "پھکی" بیچی ہے وہ کچھ مزید وقت گزرنے پہ اپنا اثر دکھائے گی حالانکہ یہ ان کا دماغی ضعف ہے جو سوچنے سے جانا ہے بولنے سے نہیں۔ شور مچانے سے، اور سوشل میڈیا کا پانی گدلا کرنے سے زندگی کی حقیقتیں نہیں بدلنے والی اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ہوا چھوڑتے غبارے کی طرح صرف ایک دیوار سے دوسری دیوار پر لگ رہی ہے، بغیر کسی سمت کے۔
اگست 2018 سے لے کہ اب تک مارچ 2019 تک چھ مہینے سے زیادہ عرصے میں اس حکومت کے کارہائے نمایاں کا جائزہ لیا جائے جو سوشل میڈیا پہ سر انجام دئیے گئے تو ایک بہت طویل فہرست ہے لیکن حقیقت کیا ہے اور اگست 2018 سے پہلے پاکستانیوں کو کیسے جھانسہ دیا گیا اس کا جائزہ یقینا دلچسپی کا باعث ہو گا۔
سالانہ 11 ارب روپے کی کرپشن حکمران ملک لوٹ کر کھا گئے۔
جب حکمران چور ہو گا تو لوگ ٹیکس نہیں دیں گے۔
ڈالر 102 سے 104، معیشت کی حالت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں
سی پیک کرپشن کا ذریعہ پانامہ کیس
لیپ ٹاپ سکیم، اربوں کھربوں کی کرپشن
صاف پانی سکیم، خادم اعلٰی کرپٹ
آشیانہ سکیم، چوری
اسحاق ڈار، نالائق
مودی کا یار
جہادی تنظیمیں ہمارا سٹریٹیجک سرمایہ
دشمن ملک میں فیکٹریاں
قوم میٹرو سے نہیں بنتی
پشاور بی آر ٹی، گیم چینجر
پٹرول 46 روپے کا ہونا چاہیے
یہ سارے نعرے، دعوے، سلوگن جو بھی کہہ لیں، ایک بھر پور میڈیا مہم، سب سے بڑھ کر شرطیہ کامیاب منجن مذہب کا استعمال، ان سب کے پیچھے خلائی مخلوق۔ اور نشانہ ہمیشہ ایک۔ ترقی کی سیڑھی پہ قدم رکھتا ملک۔ بے وقوف ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا نشانہ سابقہ حکومت تھی یا نواز شریف اور مسلم لیگ ہے۔ وہ تو شائد کبھی پھر بھی حکومت میں آ جائیں۔ وہ وقت دوبارہ لانے کے لئے شائد اتنی محنت کی سکت اب نواز شریف میں باقی نہ بچی ہو۔ سو نشانہ نواز شریف یا مسلم لیگ نہیں بلکہ یہ ملک اور عوام ہیں۔
اتنے سارے کانوں کو بھلے لگنے والے راگ، بہت سارا پیسہ، نادرا کا نازک سافٹ وئیر، جب جذبہ سچا ہو تو پوری دنیا آپ کو ملانے کے لئے اکٹھی ہو جاتی ہے۔ سورج، ستارے، "قمر"، ہوائیں، فضائیں، ان کے "فیض" بھی کامیابی نہ ملے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو پڑھا لکھا اور دور اندیش ثابت کرنے کے لئے عجیب الخلقت، زمینی حقائق سے دور مسائل کے انوکھے حل پیش کرنے والے دانشوروں کی بھی چاندی ہوئی اور نئی حکومت آنے سے ایسے ایسے لوگوں کی "کمینی خوشی" باہر آئی جنہوں نے دانشوری اور غیر جانبداری کی بڑی سی موٹی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ الیکشن میں ہونے والی ہر سازش کو یکسر مسترد کرنے میں یہ طبقہ پیش پیش رہا۔ دنیا بھر کی اخلاقیات کا درس دینے والے یہ قوم کے امین، اوردیہات کے وہ جاہل اور اجڈ لوگ جو تھانے دار کو اپنا "بابا" اوپر رکھنے کے لئے رشوت کوتیار تھے، وقت آنے پہ تقریبا ایک جیسے ثابت ہوئے۔ سچ بولنے کا دعوٰی کرنا، اس کی تلقین کرنا، سچ بولنےسے کہیں زیادہ آسان ہے۔ یقین نہ آئے تو ان بہادر لوگوں کے ٹی وی پروگرامز اور کالم ملاحظہ کریں جو ہر وقت سچ کا "علم " اٹھا کے کھڑے تھے، مگر "سینسر شپ " کا سامنا "بھیڑوں" کی طرح بہادری سے کیا۔ ایک لفظ کی حریت پسندی کی اوقات ثابت نہ ہو سکی ان کی۔
اتنی محنت سے لائی گئی حکومت کے پہلے چھ مہیوں کا نتیجہ سبھی بھگت رہے ہیں۔ عوام تو ہر دفعہ بھگتتی ہے پر اس دفعہ تو "چاند تارے" حقیقت کی زمین پر آ گئے ہیں۔ جھنجھلاہٹ نظر آرہی ہے یہ اس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ موجودہ حکومت کے بڑبولے یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ نواز شریف کی بے ایمان اور نا اہل حکومت کرپشن بھی کرتی تھی، مہنگائی پھر بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس دور کی ایماندار حکومت کرپشن بھی نہیں کرتی مہنگائی ہے کہ اوپر سے اوپر جا رہی ہے۔ ایماندار حکومت کو کوئی ملک قرضہ دینے کو تیار نہیں۔ سی پیک کے دشمن آپ سے وعدے تو کر رہے ہیں پر دے کچھ نہیں رہے حتٰی کہ" تیل" بھی نہیں دے رہے کہ کچھ تو آسانی کا معاملہ ہوجاتا۔ آپ مانگنے کے لئے ہر ایسے ملک کا دورہ کر چکے جس سے کچھ ملنے کی امید تھی، پر سوائے آپ کی ہینڈ سم ہونے کی تعریفوں کے "چھنکنے" کے اور ہاتھ کچھ نہ آیا۔ آئی ایم ایف کے سامنے وزیراعظم کے زانو تلمذ طے کرنے کے نتائج "سٹیو جابز" پہلے سے ذہن تیار کر کے بتا رہے ہیں کہ "عوام کی چیخیں" نکلیں گی۔ ان کے بندہ صدقے واری کیوں نہ جائے جو ایسی "خوشخبریاں" ایسے سناتے ہیں جیسے دشمن ملک کے عوام کی بات ہو رہی ہو۔ مثبت بات یہ ہے کہ سٹیو جابز پوری کوشش کر رہا ہے کہ پٹرول 46 روپے پہ آجائے جو اس وقت 90 سے اوپر ہے۔ ان کی محنت سے لگتا ہے کہ 46 تک ضرور پہنچے گا 56 روپے ہی تو اس میں اور بڑھانے ہیں۔
کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہو رہے۔ ہر ہفتے شہباز شریف کو کسی نہ کسی مقدمے سے رہا کر کے سابقہ حکومت کو شفافیت کے سرٹیفیکیٹ جاری ہو رہے ہیں۔ مودی کے یار کی انڈیا میں کوئی فیکٹری تو ابھی تک دکھائی نہیں لیکن مودی کا "دشمن" مودی کو مس کال کرنے میں مصروف ہے کہ "جگر ابھی نندن کی رہائی کا تھینکس ہی بول دے تیری درخواست کے بغیر میں نے چھوڑ دیا"۔ پھر بھی مودی کا یار کوئی اور ہے۔ پتہ نہیں یہ دشمن کا یار ہونے کا سرٹیفیکیٹ کون بیچتا ہے اور خریدنے والے ہر دفعہ الیکٹڈ لوگوں کو آسانی سے یار تسلیم کیوں کر لیتے ہیں۔ سیلیکٹڈ اور سیلیکشن کمیٹی بذات خود کیوں کبھی دشمن کے یار قرار نہیں دئیے جاتے۔
سب سے دلچسپ صورت حال ڈالرکی ہے۔ کبھی عمران خان اور اسد عمر صاحب بتایا کرتے تھے کہ روپے کے چند پیسے گرنے سے معیشت کا کتنا نقصان ہوتا ہے اور مہنگائی کا طوفان کیسے غریب کو لپیٹ میں لیتا ہے۔ اکانومی کی ڈاکٹرائین بتایا کرتی تھی کہ 2 روپے اگر ڈالر اوپر چلا جائے تو اکانومی کی حالت غیر تسلی بخش ہو جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ اب 20 روپے ڈالر مہنگا ہونے کے باوجود اگر غریب مہنگائی سے محفوظ ہے اور اکانومی کی گروتھ ہو رہی ہے تو پچھلے 6 مہینے میں اس سے پچھلے پانچ سالوں میں بتائے گئے اصول، قانون تبدیل ہو گئے ہیں یا غریب زیادہ موٹی کھال والا ہو گیا ہے جس پہ کوئی اثر نہیں ہوتا، یا اکانومی الاسٹک کی بن گئی ہے کہ اب اس پہ اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
غرضیکہ کہ ایک غیرمستحکم ذہن کے بیمار شخص اور چند موقع پرست لوگوں کے جتھے کی پشت پہ اگر ایک طاقتور ادارہ، میڈیا کی جادوگری سمیت کھڑا ہو تو نازک سیاسی نظام، کمزور ادارے، نیم جمہوری ذہنیت کے سیاستدان کہاں تک تاب لا سکتے ہیں۔ حکومتیں تو گرتی رہیں گی۔ اس دفعہ تو زیادہ زور لگانا پڑا مگر حکومت گرانے میں جتنی بھی محنت لگی ہو، حکومت چلانے کے لئے اس سے زیادہ محنت اور مہارت چاہیے۔ بدقسمتی سے پچھلے 70 سال مہارت حکومتیں گرانے کی حاصل کی گئی ہے حکومتیں چلانے کی نہیں، اور کٹھ پتلیاں حکومت نہیں چلایا کرتیں۔ پچھلے 6 مہینے کے نتائج کچھ ایسا پتہ دے رہے ہیں۔