چند ماہ پہلے ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا کسی نے یو ٹیوب کا لنک بھیجا کہ اس فلم پہ حکومت نے پابندی لگا دی ہے اس نے عدالت میں نمائش کی اجازت لینے کے لئے مقدمہ کیا ہوا ہے۔ پرومو میں عاشر عظیم کو دیکھ کہ فلم دیکھنے کا شوق پیدا ہوا کہ وہ میری اوائل جوانی کا ہیرو تھا۔ ہم اس کے ڈرامہ "دھواں" کوآئیڈیلائز کرتے تھے۔ نصرت فتح علی خان کے گانے "کسے دا یار نہ وچھڑے" کو اس رنگ میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا جس طرح سے عاشر عظیم نے پیش کیا۔ ایک ایکشن ڈرامہ سیریل جس نے ہمارے ذہنوں میں "ایکسٹرا جوڈیشیل کلنگز"۔ ۔ ۔ ماورائے عدالت قتل کے لئے جگہ بنائی۔ کچے ذہنوں میں یہ خیال پختہ ہوا کہ قانون بے بس ہوتا ہے اور انصاف کے لئے قانون سے بالا اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ کیوں کہ مجرم قانون سے طاقتور ہے اور ایک ڈی ایس پی جو ہمارے معاشرے میں ایک طاقتور آدمی سمجھا جاتا ہے وہ بھی بے بس ہے اس نظام میں۔
دوسرا نتیجہ یہ نکالا کہ ان ماورائے قانون اقدامات کے لئے جو انتظامی پیسہ چاہیے وہ ان ڈاکووں اور چوروں سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مطلب ان سے برآمد ہونے والی رقم کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے لیکن بطور محب وطن شہری صرف اپنی "ضرورت" کے مطابق۔ باقی کی قومی خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ چونکہ ماوراے قانون اقدامات کرنے والا بندہ ہمارا ہیرو اور ایک ایماندار آدمی ہے اس لئے اس کو اجازت ہے کہ وہ حسب ضرورت رقم رکھ سکتا ہے۔ اور ہم اپنے کچے ذہن کے مطابق اس کو عین مناسب اور صحیح خیال کرتے تھے۔
ذہن پہ لگنے والی یہ چھاپ اتنی گہری تھی کہ اگلے پندرہ سال اس تھیوری پہ مکمل یقین تھا۔ وقت کے ساتھ، عمر کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ قانون سے بالا کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اگر فرد واحد نے ہی غلط صحیح کا فیصلہ کرنا ہے تو سسٹم کیوں بنائے جاتے ہیں ؟ آئیں اور قانون بنانے کی ضرورت کیا ہے اگر ایک ڈی ایس پی ہی ملک وقوم کے متعلق صحیح فیصلے کر سکتا ہے؟
صدیوں تک ایک دوسرے کا خون بہانے اور نظام حکومت کے مختلف طریقے دریافت کرنے کے بعد جس طرز حکومت اور قانون کی بالا دستی کے جس نظام پہ آدھی سے زیادہ دنیا متفق ہے اس سے ہم کیوں اتفاق نہیں کر سکتے۔ کیا یہ ہماری پاکستانیوں کی ذہنی برتری کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم ان سے بہترطریقہ رائج کرسکتے ہیں یا 3، 4 سو سالہ غلامی کا اثر ہے کہ ہم میں لڑنے کا حوصلہ نہیں رہا بس ایک طاقتور کو آئیڈیلائز کرتے ہیں کہ وہ ہماری جگہ ولن سے لڑے۔ یا ان کتابوں کا اثر ہے جس میں ہیروکو ہمیشہ تلوار یا گنڈاسہ ہاتھ میں لئے، گھوڑے پہ سوار دکھایا جاتا ہے۔ ہم اس ہیرو کے ساتھ ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اس ظلم کے نظام سے لڑ رہا ہوتا ہے۔ اور "نظام" ہمارے لئے ہمیشہ "ولن" اور "اینٹی ہیرو" رہا ہے۔ اس لئے ہم کبھی "نظام" نہیں بنا سکے اور بدنظامی کا شکار رہے ہیں۔
بات "مالک" سے "دھواں" کی طرف چلی گئی۔ 20 سال تک عاشر عظیم نے کوئی کام نہیں کیا میڈیا پہ۔ پھر اچانک ایک مووی "مالک " کے ساتھ نمودار ہوئے۔ تو خوشگوار حیرت ہوئی اور ماضی کی حسین یادیں اور وہ احساسات دوبارہ سے جاگنا ایک فطری عمل تھا۔ پروموز بھی بہت خوبصورت تھے۔ کافی عرصے سے موویز دیکھنے کا سلسلہ کم ہو گیا ہے پھر بھی بچپن کے اس ہیرو کو پھر سکرین پہ چلتا پھرتا دیکھنے کے لئے وقت نکالنا پڑا۔ فلم اچھی بنائی۔ ٹیکنیکلی ہم ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سے پیچھے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ فلم کافی اچھی تھی۔ کہانی میں وہی "دھواں" والی جھلک تھی۔ اور بنیادی خیال دیکھ کر پوری فلم دیکھنےکا شوق جاگتا ہے وہ بنیادی خیال یہ تھا کہ
"میں ایک عام پاکستانی ہوں اور میں اس ملک کا مالک ہوں "
میرا اپنا اس خیال پہ دل و جان سے یقین ہے۔ کہ اس ملک کی حکمرانی صرف ایک عام پاکستانی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اور یہی اٹریکشن تھی اس مووی کی۔
اس مووی کا ہیرو ایک ریٹائرڈ کمانڈو ہے۔ جس نے اپنی سیکورٹی ایجنسی بنائی ہوئی تھی اور لوگوں کو "ڈائریکٹ " انصاف پہنچاتا تھا۔ لازمی بات ہے کہ اس کا سسٹم یا قانون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں مووی پوری نہ دیکھ سکا کچھ اپنی غیر مرتکز طبیعت کی وجہ سے اور کچھ کہانی کی یکسانیت سے کہ 20 سال پہلے والے ڈرامے کی چھاپ بہت گہری تھی۔ لیکن ایک خیال چپک گیا کہ ماورائے قانون اقدامات پہ یقین رکھنے والے 20 سال بعد بھی اپنی سوچ بدل نہیں پائے۔ وقت نے انکا یقین پختہ کیا ہے صرف پولیس کی جگہ فوج کی وردی پہنا دی۔ اور ہماری اگلی نسل کو ایک اور لا حاصل خواب اور آئیڈیا دے رہے ہیں۔ اسی گول چکر میں ایک اور نسل کو ڈال رہے ہیں۔
نعرہ کہ عام پاکستانی ملک کا مالک ہے اچھا ہے پر اس کے لئے فوجی ہونا ضروری ہےکہ وہ بے چارے سرحدوں کی حفاظت کرکر کے ملک اندر کے نظام کو ٹھیک کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہی ہمارے مشکل کشا ہیں اور اس کے لئے انکو کچھ ماورائے قانون اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ یہ مجبوری ہے اور اس میں عوام کی بھلائی ہے۔ عوام کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ قانون توڑنے میں، آئین توڑنے میں آخر کار عوام کا ہی فائدہ ہے۔
میں نے مووی نہیں دیکھی، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کا اینڈ کچھ یوں ہونا چاہیے کہ وہ ریٹائرڈ کمانڈو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو۔ اور ایک سفید بالوں والا فرشتہ صورت جج انصاف کی کرسی پہ براجمان ہو۔ کمانڈو کٹہرے میں کھڑا ہو کہ اپنے ملک کے مسائل بتائے جن کا عام عوام شکار ہے۔ ان مجبوریوں کا ذکر کرے جس نے اسے لاقانونیت پہ مجبور کیا۔ جن میں قتل، اغوا، مار پیٹ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ آخر میں جج پرفکر انداز میں سر ہلائے اور کہے کہ
" اگرچہ ہم قانون کے رکھوالے ہیں اور اس کی پاسداری ہم پہ فرض ہے لیکن قانون عام انسانوں کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اورہمیں عام انسانوں کی بھلائی کے لئے کبھی کبھی قانون پہ عمل نہیں بھی کرنا چاہیے۔ ہمارے ہیرو نے جو کیا وہ وقت کی ضرورت تھی۔ لہذٰا اس کو سات خون معاف، بلکہ سارے گناہ معاف"
ہیرو وکٹری کا نشان بنائے۔ بیک گراونڈ میں جھنڈا لہرائے۔ ہال میں تالیاں بجیں۔ لائٹس آن ہو جائیں۔ اور ہم سمجھیں کہ ہم روشنی میں آگئے ہیں۔ اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھتے ہوئے گھر چلے جائیں۔ اگلے 8، 10 سال تک بھگتتے رہیں۔ اگر شعور کہیں سے اپنا راستہ بنا لے تو کوئی اور عاشر عظیم آ کہ اگلی نسل کو "وے فارورڈ" بتائے۔
اور ہم سو جوتے اور سو پیاز کے اس چکر میں پڑے رہیں۔