ارشاد ہے کہ "ساری دنیا ملکر کسی کوذلت دیناچاہے مگر اللہ نہ چاہےتو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
اورساری دنیا ملکر کسی کوعزت دینا چاہے مگر اللہ عزت نہ دیناچاہےتو کوئی عزت دے نہیں سکتا "
کسی کے چہرے پہ آپ سیاہی پھینک مطمئن ہو سکتے ہیں، کسی کے اوپر آپ جوتا پھینکوا کے آپ اپنے اندر کے ذلیل جانور کو سکون دلا سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کا ادراک آپ نہیں کر پا رہے کہ آپ ان کا راستہ روک نہیں پائیں گے۔ ہم اس دوراہے پہ آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے اگلی نسل کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کل ہمارے بچے اپنی مرضی سے اپنے حکمران چنیں گے یا ان کو بھی ہماری طرح لیفٹ رائٹ کروا کے پولنگ سٹیشن تک پہنچایا جائے گا۔ اس دوراہے تک لانے میں بڑی محنت کی گئی ہے۔ پچھلے چار سال میں عمومی طور پہ اور دو سال سے اپنی تہبند کا عمامہ بنا کہ زور لگا رہے ہیں۔ کامیابیاں بھی ملیں۔
یہ کامیابی تھی کہ ہمارے مسائل کو حل کرنے والا وزیر اعظم، جو معیشت پہیہ چلانے میں نہیں تو ہلانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جو ستر سال میں پہلی دفعہ خود سپردگی کے شکاروں کو امریکہ کے نیچے سے نکالنے میں تقریبا کامیاب ہو گیا تھا۔ جس نے چائنہ اور کسی حد تک روس کو آن بورڈ کرکے خود انحصاری کی طرف قدم بڑھایا تھا۔ اسے نکال کے ہی دم لیا۔ جو مہرے استعمال کیے وہ بہت کمزور ہیں۔ سب مل کہ اس نکالے گئے نا اہل آدمی کا سیاست کے میدان میں، تو کیا مقابل کرتے قانونی میدان میں بھی نہیں کرپا رہے۔ اب بابے کو سڑکوں اور بازاروں میں چھوڑنا بھی شائد فائدہ مند نظر نہیں آرہا ورنہ بلڈی سویلین کی تذلیل کا جو طریقہ اب اختیار کیا گیا ہے اس لیول تک کبھی نہ اترتے۔ ہوش کے ناخن لو کہ یہ پھر سے بازاروں میں تھپڑ پڑوائے گا۔
خواجہ آصف، پچھلے پانچ سال میں جس کی محنت سے ہم نے بجلی کے بحران پہ قابوپایا۔ ۔ جس نے امریکہ کو ان کی زبان میں جواب دیا۔ کا منہ کالا کرنا بنتا ہے۔ اس قوم کو جو بھی عزت سے روشناس کرائے اس کا منہ کالا کرایا جانا چاہیے کہ غلام بنانے والوں کو روشنی سے نفرت ہوا کرتی ہے۔ پر تم اور تمہارے کھیل خواجہ آصف کے لئے نئے نہیں ہیں۔ ایک بزرگ ہوا کرتا تھا جس کو اپنی طاقت پہ بڑا مان تھا۔ وردی جس کی کھال ہوا کرتی تھی۔ جب وہ غرور کی بلند ترین پہاڑی پہ تھا تو یہ خواجہ آصف اسے للکارا کرتا تھا۔ جس کو اپنی جان اور مال کی ایک بڑے غنڈے کے مقابلے میں پرواہ نہ ہو وہ تمہارے اس گھٹیا ہتھکنڈے سے گھبرا جائے گا ؟ خواجہ آصف ہی کیا کوئی بھی نہیں گھبرائے گا۔ کیوں کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ فون ٹیپ کرنے والے یا خفیہ وڈیو بنانے والے نہیں۔ عوام کا ووٹ ہے۔ اور وہ ان کے ساتھ ہی ہے۔
اگر مہرے کمزور ثابت ہوئے، بابے کے روز کے ڈرامے بھی ناکام ہو رہے ہیں۔ تو تلملا ہٹ کیسی ؟ سیاست میں گھسو تو حوصلہ بھی رکھو۔ اب اسے سڑکوں پہ کھلا چھوڑ کے بھی دیکھ لو۔ وقت کا دھارا بدل رہا ہے۔ لوگوں کا شعور سازشوں کی نفی کر رہا ہے۔ جس میں تھوڑا بھی فہم ہے وہ چالیں سمجھ رہا ہے۔ جس کی ریڑھ کی ہڈی میں تھوڑی بھی جان ہے وہ اس سازشی طاقت کے خلاف کھڑا ہو رہا ہے - لیکن نشانیاں عقل والوں کے لئے ہوتی ہیں۔
جمہوریت پہ احسان کرنے والے اس ملک میں بار بار پیدا ہوتے رہے۔ ہر کسی کا دعویٰ تھا کہ جمہوریت اس کی وجہ سے سانس لے رہی ہے۔ لیکن جمہوریت اپنا راستہ خود بناتی ہے اور بنا رہی ہے۔ کسی کی کیا اوقات کہ وہ جمہوریت کو بچائے۔ اگر جمہوریت بچانے سے مراد اپنے اقتدار کی خواہش پہ قابو پانا ہے تو یہ اپنے ساتھ نیکی ہے کسی پہ احسان نہیں۔ جمہوریت جانے، عوام جانیں اور سیاستدان جانیں۔ دوسروں کے منہ کالے کرو گے تو اپنا بھی ہو گا۔ اگر آج مدرسے میں کسی پہ جوتا پھینکا جا سکتا ہے تو کل کسی منبر پہ یا کسی بڑے کھانے میں بھی پھینکا جا سکتا ہے۔ انسان نہ کسی کو عزت دے سکتا ہے اور نہ چھین سکتا ہےکیونکہ عزتوں کا حساب کتاب اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے۔
"ساری دنیاملکر کسی کوذلت دیناچاہے مگر اللہ نہ چاہےتو کوئی کچھ نہیں کر سکتا
اورساری دنیا ملکر کسی کوعزت دینا چاہے مگر اللہ عزت نہ دیناچاہےتو کوئی عزت دے نہیں سکتا "