شام کو جب شہر کی سب سڑکیں
شہد کا چھتہ بن جاتی ہیں
کاریں، رکشے، بسیں، ویگنیں، موٹر سائیکلیں
پہلے بھنبنھانے لگتے ہیں، پھر
ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے اور بالآخر
بھنبھوڑ ڈالنے کے لیے
اس پاگل پن کا شکار ہوتے ہیں
جس کے آثار
آدم کو
شہر کی پہلی بنیاد کھودتے ہوئے ملے تھے
یہ سب
اپنی اپنی جائے امن پر سب سے پہلے پہنچنے
کی جلدی میں
سڑک پر امن کی تکا بوٹی کرتے ہیں
نارنجی کرنوں کے جھاڑو سے
شام کا سورج
دھوئیں، مٹی اور ہائی بیم روشنیوں کی گرد ہٹاتے ہٹاتے
ہانپنے اور ہارنے لگتا ہے
باشندگان ارض کو الوداعی، دعائیہ سلام
کہنے کی آخری کوشش میں
لمبے، بوجھل، بھاری سانس لیتا ہے
ماتمی سیاہی کے ڈرم کا ڈھکنا کھل جاتا ہے
عجلت کی بے خبری میں
گھرے ہوؤں کی ہتھیلیوں اور ماتھوں پر سیاہی
بے رحمی سے گرتی ہے
تقدیر کے آڑے ترچھے، الجھے، بل کھاتے
تقش بناتی چلی جاتی ہے!