1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. تبتی بدھوں کا پیالہ، یاد کا مکان، ماضی کا مزار، شاعری

تبتی بدھوں کا پیالہ، یاد کا مکان، ماضی کا مزار، شاعری

کیا تم میں سے کسی نے تبتی بدھوں کا تانبے، کانسی یا پیتل کا پیالہ دیکھا ہے؟ میرے استفسار پر سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ میں سمجھ گیا۔

تم سب لوگ یہ قہوہ پیو اور میوے کھاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں کرسی سے اٹھا۔

تھوڑی دیر بعد میں تانبے کا پیالہ اور موگری لایا۔ اسے گائیک پیالہ یا پوجا پیالہ بھی کہتے ہیں۔ مجھے یہ پیالہ تبت کے ایک بدھ راہب نے عطا کیا تھا۔ اس کی ایک جدا کہانی ہے۔ مجھے زندگی میں بہت تحفے ملے، صرف تین میں نے سنبھال کر رکھے ہیں۔ ان میں ایک یہ پیالہ ہے۔

اسے تھامتے ہوئے، اس کا لمس محسوس کرتے ہوئے، مجھ میں روشنی کی ایک شیریں لہرپہلے رواں، پھر ایک مقام پر مرتکز محسوس ہوتی ہے۔ میں نے پیالہ سامنے میز پر رکھا۔ اس پر موگری کی ہلکی سی ضرب دی۔ گھررررررگھووووم م مم۔۔ اس کی صدا کی ایک زنجیر بنتی چلی گئی۔ میں نے اسے تین بار بجایا۔

اس کی صدا کی زنجیر طویل ہوتی گئی۔ جب صدا ختم ہوئی تو لگا کہ جیسے اب اس کی صدا کی بازگشت، ہم سب کو اندر محسوس ہونے لگی ہو۔ اس کی صدا میں ایک ایسا طلسم ہے کہ وہ باہر اور اندر کی باقی سب آوازوں کو خاموش کرادیتا ہے۔ یہ ایک نرم، شیر یں مگر شاہانہ صدا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کارشتہ اس ازلی صدا سے ہے جو لاکھوں قرنوں سے کائنات میں گونج رہی ہے۔ واللہ اعلم۔

ہم سب کچھ دیر مبہوت اور خاموش رہے۔ جیسے ہمیں مزید کوئی بات کہنے، سننے کی ضرورت نہ ہو، جیسے سب ضروری باتوں کے جواب دیے جاچکے ہوں، جیسے وہ سب باتیں جنھیں ہم اب تک ضروری سمجھتے آئے ہیں، وہ ضروری تھی ہی نہیں۔

ہم ایک سحر میں تھے۔ ہم سب خاموش تھے۔ یہ سحر کچھ دیر میں ٹوٹا۔ ان پانچ طالب علموں نے میری طرف دیکھا۔ جیسے اب کوئی بات کہنا ضروری ہو۔

میں نے کہنا شروع کیا: اگر کبھی تمھیں لگے کہ اسی طرح کی صدا کی کوئی زنجیر تمھارے ا ندر کبھی اچانک، بے سبب، کسی ارادے کے بغیر پیدا ہوتی ہے تو سمجھو کہ تم میں وہ ندی موجود ہے، جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ تم اسے راستہ بنانے دو۔ تم اپنی مصروفیت، کاہلی، نیند کو آڑے نہ آنےدو۔

تم دیکھو گے کہ تمھارے وجود میں اچانک، بے سبب مگر بے ساختہ طور پر ایک آہنگ جنم لیتا ہے۔ پہلے ایک ہلکی سی صدا پیدا ہوتی ہے، باقی سب صداؤں سے مختلف اور انوکھی۔ تم چاہو نہ چاہو، تم اس کے انوکھے پن کو محسوس کروگے۔ تم دیکھو گے کہ پھر یہی صدا آدمی کے وجود کے سب گوشوں، منطقوں، اطراف و اکناف میں بڑھنے، پھیلنے لگتی ہے، باقی سب آوازوں کو خاموش کرا دیتی ہے، جو آدمی کے اندر باہر شور برپا کیے رکھتی ہیں۔

اس کے مزاج میں ایک عجب تمکنت، شاہانہ وقار اورکچھ کچھ نرگسیت ہوتی ہے۔ یہ بدھ راہبوں کے پیالے کی صد اکی مانند بے لفظ، مگر گونج دار ہوتی ہے۔ یہ آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اسے سنے، سارے کام تج کر، اسے سنے اور اسے اپنے ڈھنگ سے ظاہر ہونے دے۔

تمام تخلیق کار، اسی آہنگ کے تحت تخلیق کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کائناتی آہنگ ہے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو اپنی اس آوار ستان نامی چھوٹی سی بستی کے آہنگ کو سننے کی کوشش کی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کے آہنگ کا کوئی سرا، کائنات سے ملتا ہے، ہوسکتا ہے کہ کائنات میں اتنے ہی آہنگ ہوں، جتنے یہاں سیارے اور ستارے ہیں، جتنے یہاں شہر اور بستیاں ہیں اور جتنے یہاں انسان ہیں۔ ایک آدمی کے وجود میں پیدا ہونے والا آہنگ، اس آدمی کی یادوں، تجربوں، دکھوں، راحتوں، مطالعے و مشاہدے کی حدو وسعت سے الگ نہیں ہوا کرتا۔

مجھے یاد ہے، ایک بار میں اپنے ابا کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ کچھ اداس تھے۔ میں نے سبب پوچھا تو وہ کچھ نہیں بولے۔ تبھی مجھے لگا کہ ایک آدمی کی یاد، اس کی سب سے نجی شے ہے۔ یوں سمجھیں یہ ایک مکان ہے، جسے آدمی نے خود بنایا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس میں داخلے کا دروازہ کہاں ہے، اسی کو اختیار ہے کہ وہ اس مکان میں کب کب رہتا ہے اور کب اسے مقفل رکھتا ہے اور کب اسے اہلِ جہاں پر کھولتا ہے۔

تم سب نوجوان، رفتہ رفتہ محسوس کروگے کہ اس مکان کے مقام کا علم، آدمی کے سوا کسی کو نہیں، اسی لیے کوئی اس پر یورش نہیں کرسکتا، ہاں آدمی خود چاہے تو اس کا دروازہ دوسروں پر کھول دے اور چاہے تو اسے اجڑنے دے یا اس کے برابر کئی مکانات تعمیر کرتا کرتا ایک پورا شہر بنا دے۔ یادوں کا شہر۔ شاعری، یادوں کے شہر کی کہانیوں کے سوا کیا ہے؟

کیا یہ ماضی پرستی نہیں؟ ایک نوجوان نے میری طرف استعجابیہ نظر وں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

ہمم۔ میں کچھ دیر کے لیے چپ ہوا۔ ہم باتوں میں گم تھے، قہوہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ میں نے اس کا ایک گھونٹ پیا اور گھر میں کہلا بھیجا کہ ہم سب کے لیے تازہ قہوہ اور مزید میوے بھیجیں۔ میں نے پھر کہنا شروع کیا۔ میں نے دانستہ ماضی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ تم شاعری کرنا چاہتے ہو تو پہلے دن سے جان لو کہ الفاظ میووں کی طرح ہیں۔ ہر میوے کا ذائقہ الگ ہے۔ شہتوت، انجیر کی مانند نہیں اور اخروٹ، بادام کی طرح نہیں۔ خوبانی، پستے سے جدا ہے۔ پر ہر جگہ کے شہتوت، انجیر، بادام، اخروٹ، سب جدا ذائقے رکھتے ہیں۔

الفاظ کے میووں کا تو شمار بھی نہیں۔ اس لیے میرے دوستو، یاد اور ماضی ایک نہیں دو لفظ ہیں، دو جدا میوے۔ یاد کا اگر مکان ہے تو ماضی کا مزار ہے۔ یاد میں زندگی کا عنصر ہے، ماضی میں کھنڈر اور آثار ہیں۔ یاد، ذاتی چیز ہے، آدمی کا ذاتی مکان ہے اور اس کے خون میں بہتی ایک ناؤ ہے، ماضی باہر کی، مشترکہ چیز ہے۔ ہاں، جب یاد ظاہر ہوجاتی ہے اور دوسرے اس میں شریک ہوتے ہیں تو وہ بھی ماضی اور تاریخ بن جاتی ہے۔ یاد، اس وقت تک یا دہے، جب تک وہ نجی ہے۔

شاعروں نے ماضی کو بھی لکھا ہے، کچھ نے بہت اچھا بھی لکھا ہے، مگر میں یاد کو لکھنے میں یقین رکھتا ہوں۔ یا دکیا ہے؟ ایک بار پھر اس سوال پر سوچیں۔ یاد، دنیا اورآدمی کے درمیان تعلق کی گواہ ہے۔

جو کچھ ہم دیکھتے، سنتے، پڑھتے، غور کرتے ہیں، جو تجربات ہم کرتے ہیں، جن حادثات، سانحات، صدمات سے ہم گزرتے ہیں، جن سے ہمارے بدن سیراب ہوتے ہیں اور روحیں مجروح ہوتی ہیں، جن باتوں کے زخم ہمیں لگتے ہیں اور جو ہم پر پھولوں کی مانند گرتی ہیں، جس تفریق و تقسیم کو دیکھ کر ہم افسردہ ہوتے ہیں، اپنے عزیروں سے لے کر صاحبانِ اختیار اور اس سے آگے تقدیر کے سب زخم جو ہم سہتے ہیں، وہ سب ہمارے وجود کی کتاب میں رقم ہوجاتے ہیں، تصویر بن جاتے ہیں، ناؤ بن جاتے ہیں، مکان بن جاتے ہیں۔

ایک لمحہ آتا ہے، جب ایک آہنگ ہم میں جاری ہوتا ہے تو یاد کی یہی کتاب کھل جاتی ہے، یا ہم اس مکان میں داخل ہوجاتے ہیں، یا ہم اس ناؤ میں بیٹھ جاتے ہیں اور اس تجربے کو ہم لکھتے ہیں۔ یادرکھو، مئورخ یاد کو اور شاعر یا دکے تجربے کو لکھتے ہیں۔ تجربہ، زندہ، سانس لیتا ہوا، لہو میں جوش مارتا، آدمی کے پورے وجود کو غفلت سے بیدار کرتا عمل ہے۔ شاعری، پورے آدمی کو لکھتی ہے۔ آدمی پورے کاپور ا صرف شاعری اور دیگر فنون میں کھلتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی پاگل پن میں بھی کھلتا ہے۔

(زیر تصنيف میرا داغستانِ جدید سے اقتباس)