خیر و شر کا مسئلہ قدیم زمانے کا ہے یہ وجود رکھتا ہے اس کے تعین پر بحث نہیں ہے فلحال بات قانون کی ہے، اصل مسئلہ قانون کا ہے، دراصل قانون بذات خود وجود نہیں رکھتا ہے اس کی حیثیت انسان کے سامنے رتی برابر بھی نہیں ہے، قانون اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ محروم لوگوں کو جھوٹی تسلی دی جائے، بااثر افراد بہت ہی کم قانون تلے آتے ہیں۔
قانون ختم کر دینے چاہیں سوال یہ ہوتا ہے متبادل کیا ہے؟ اس کے لئے ہمیں علمِ نفسیات کا سہارا لینا ہوگا اور واپس قدیم تاریخ جو ہمارے پاس موجود ہے اس کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ انسان بذات خود کیا چاہتا ہے اس کی جبلت کو کیسے مثبت راہ پر ہموار کیا جائے، معاشرے میں کچھ انسان جبلت کا اظہار کم کرتے ہیں اور کچھ زیادہ حالانکہ یہ جبلت بنیادی طور پر ہر انسان میں موجود ہے، کیا صرف اظہار کی وجہ سے ایک انسان برا تصور کیا جانا شر ہے؟ نہیں ہر گز نہیں جبلت ہر انسان میں پائ جاتی ہے اس کا اظہار روکنا ممکن نہیں ہے مکمل طور پر۔
جبلت کا اظہار اگر با اثر شخص کردے تو اس کو شر نہیں بلکہ کئی دوسری اصطلاحات سے خیر ثابت کیا جاتا ہے اور زیر اثر شخص جھوٹے قانون کی چکی تلے آجاتا ہے، اس طرح کے جھوٹے قانون سے انسان کو آزادی دی جائے، اور انسان کو مکمل طور پر سمجھ کر اس کی جبلت پر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تاکہ با اثر اور زیر اثر دونوں کو حقیقی خیر پر لایا جائے، جدید دور میں ہمیں مکمل زندگی کے پیٹرن کو بدلنا ہوگا قانون جیسے فریب سے بڑھ کر بڑا فریب کوئی نہیں ہے۔