1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نورالعین/
  4. آخر کون ہو تم لوگ؟

آخر کون ہو تم لوگ؟

کون ہو تم لوگ؟ تم ہمارا بچپن چھین لیتے ہو ہمیں اسکول، کالجز، یونیورسٹی جانے سے روک لیتے ہو آخر کون ہو تم لوگ؟ تم لوگ انسان نہیں۔۔ تم لوگ انسان کی شکل میں درندے ہو۔۔ کچھ وقت پہلے ایک واقعہ اقبال پارک میں پیش آیا بہت سے لوگوں نے اس لڑکی کے لیے حق کی آواز اٹھائی تو بہت سے لوگوں نے یہ کہہ کر چپ کروانے کی کوشش کی کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔۔ جب میں نے اس سارے واقعہ پر نظر ڈالی تو مجھے اس معاشرے کی ہوا میں معصوم بچیوں کی چیخیں سنائی دیں تو اس وقت ذہن میں یہ سوال آیا کہ کیا اب تالی ایک سے نہیں بجی؟

میں اپنے آپکو اس معاشرے کا پڑھا لکھا بندہ سمجھتی ہوں بلکہ ہر وہ شخص اس معاشرے کا پڑھا لکھا بندہ ہے جو تعلیم یا فتہ ہے جس کو اچھے برے کی پہچان ہے تو اس وقت ہماری انسانیت کہاں چلی جاتی ہے جب کسی بےگناہ کے لیے ہم نے آواز اٹھانی ہوتی ہے۔۔۔ ہم اس ملک کو کس طرح ترقی یافتہ ملک بنائيں گے جب ہم آزادی والے دن بھی آزاد نہیں ہیں۔ اسکول، کالجز ہم تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں وقت کا پتہ نہیں ہوتا کون سا درندہ کب حملہ کردے۔۔۔ کب اُسکی انسانيت مرجاۓ اور وہ ایک درندہ کی صورت میں باہر آجاۓ۔

ہم اتنے سارے واقعات سنتے ہیں دیکھتے ہیں خود سوچیں کیا یہ ملک ہم نے اسلیے حاصل کیا تھا۔۔۔ اس ملک کو حاصل کرنے کی ایک یہ بھی وجہ تھی یہاں ہم سکون سے عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔۔۔

کچھ روز پہلے پیش آنے والے واقعے میں 400 مردوں کی انسانيت مرگئی تھی۔۔۔۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اُن 400 افراد میں سے ایک مرد بھی ایسا نہیں تھا جو اُس عورت کا محافظ بن جاتا۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے ایسے آزاد پاکستان کو جہاں صرف مرد آزاد ہے کیونکہ عورت کا آزاد ہونا تو اسکی شخصیت پر ایک دھبا ہوتا ہے جسے معاشرے میں بدچلنی کا نام دے دیا جاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ افسوس مجھے جب ہوتا ہے جب ایک ریپسٹ کو سرِعام آزادی سے گھومتا دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ شاید یہ ملک ہمارے اتنے عظیم رہنماؤں نے اسلیے آزاد کیا تھا۔ ہمارا عدالتی نظام تو خوابِ غفلت سے جاگ ہی نہیں پا رہا کہ کوئی تو ایسا ہو جو معاشرے میں ہوتی بے حیائی کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھائے۔ کوئی تو ایسا ہو جو عورتوں کو آزادی سے پاکستان میں رہنے کا حق دلواۓ کہ جب عورت گھر سے نکلے تو اسے قدم قدم پر راہ چلتے مردوں کا خوف نہ ہو۔۔

ہماری اس قوم کی اس قدر گری ہوئی ذہنیت کو دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کون سدھارے گا اس معاشرے کو، کون سدھارے گا ان راہ چلتے درندوں کو؟ ؟ اور کب سدھار آئے گا اس معاشرے میں۔۔ کب وہ فضا قائم ہوگی جس پاکستان میں رہنے والا ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت ہر قسم کے خوف و خطر سے آزاد ہو کر اپنی زندگی گزاریں گے۔۔