امید کرتی ہوں میرے اس عنوان سےآپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ میں کس جنگ اور وبا کی بات کر رہی ہوں۔ اگر اس وائرس کو میں ایک جنگ کا نام دوں تو غلط نہیں ہے۔ اس بڑھتی ہوی وبا سے نا جانے کتنی لوگوں کی جان چلی گی۔ کرونا کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک خوف پھیلا ہوا نظر آتا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی ایک خوف ہے۔ تو ذرا غور فرمایں کہ اس جنگ کو کیسے روکا جاے؟ شروع کے وقت میں ہم سب میں ایک خوف تھا اور وقت گزرتے ہی یہ خوف ختم ہوا اور ہم نے احتیاط چھوڑ دی۔
اب یہ بات سامنے آجاتی ہے روزی کمانے کے لیے باہر تو نکلنا ہے۔ پڑھنے کے لیے آگے بڑھنا ہے تو باہر تو نکلنا ہے۔ اب جب پڑھنے کی بات ہے تو بہت سے طلبا تو اسی بات سے خوش ہیں کہ بغیر پڑھے ہم سب پاس ہوگے۔ بہت سے لوگ اس بات کا ہی جشن منا رہے ہیں اب کچھ نہیں کرنا سارا دن گھر پر رہو۔
زرا یہ سوچیں ہم نے اس سال کیا حاصل کیا اور کیا کھویا؟ اس وبا نے ہماری زندگی جیسے روک لی ہو۔ اس جنگ میں ہمارے ڈاکٹرز اپنی جان کی فکر نہیں کرتے اس وائرس سے لڑتے لڑتے اپنی جان سے ہی چلے جاتے ہیں۔ کرونا وائرس نے ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے بند کروادیا۔ اور ہماری عبادت گاہیں بھی بند کروادیں مسلمانوں کو اس وقت انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جب خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو بند کیا گیا۔ اور دیگر مذاہب کو بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اور مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ تکلیف کی کیا بات ہوگی جب رمضان المبارک کے ماہ میں مسلمانوں کو مسجد میں جانے سے روک لیا جاے۔ یہ ساری صورتحال ہمارے سامنے ہے پھر بھی ہم کوی احتیاط نہیں کر رہے ہیں۔ میں کسی کی مخالفت نہیں کر رہی اور نہ ہی کسی کے بارے میں منفی سوچ رکھتی ہوں بس میں یہ کہنا چاہتی ہوں جس چیز سے ہمیں منع کیا جارہا ہے اس کی ہم خود احتیاط کریں۔ اگر کسی خاندان میں ایک ہی شخص کمانے والا ہے اور اگر اسےاس وبا کی وجہ سے کچھ ہوجاے تو پھر کون کماے گا؟ جس چیز کے لیے منع کر رہے ہیں ان ساری چیزوں سے دور رہیں کسی کو برا بھلا نہیں کہیں یہ روک ٹوک ہم سب کی حظاظت کے لیے ہے۔ ایک یہ برا وقت ہے جو جلد ہی گزر جاے گا۔ مگر اس میں ہمیں خود احتیاط کرنی ہے۔
خدا سے بس یہی دعا ہے کہ اس وبا کو جلد سے جلد ختم کرے اور ہم سب کو اس وائرس سے محفوظ رکھے۔