یہ کہانی کسی کی زندگی پر مبنی نہیں یہ ان سب لوگوں کی کہانی ہے جو اس دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں اور اس ذات کا شکر ادا کرنا اکثر بھول جاتے ہیں جس ذات نے اسے کامیاب کیا ہے۔ یہ ان لوگوں کی بھی کہانی ہے جو کامیابی دنیاوی کتابوں میں تلاش کرتے ہیں اور مقدس کتاب(قران مجید) کو اپنی الماری میں محفوظ کرکہ بند کیا ہوا ہے۔ یہ ان سب لوگوں کی کہانی ہے جو زندگی کی پریشانیوں میں الجھے ہوے ہیں اور چاروں طرف مایوسی کا شکار ہیں۔ اس کہانی کا آغاز کچھ یوں ہے کہ:
دوپہر کا وقت۔۔۔۔۔۔
عمر: میرے لیے ناشتہ تیار کردو جلدی سے۔
ابراہیم: دوپہر کا وقت ہے یہ میرے خیال سے اس وقت ناشتہ نہیں کرتے۔
عمر: میں اٹھتا ہی اتنے بجے ہوں۔ خیر تم سے کیا کہنا کچھ۔ تم تو ہر وقت بس وضو ہی بناتے رہتے ہو۔ رات میں جب میں سونے جارہا تھا جب بھی تم وضو بنا رہے تھے اور اب بھی۔۔۔
ابراہیم: جب آپ سونے جارہے تھے تو وہ فجر کا وقت تھا میں نماز پڑھنے جارہا تھا اْس وقت۔۔۔ اور اب آپ سو کر اٹھیں ہیں تو یہ ظہر کا وقت ہے۔
عمر: خیر۔۔۔ تم اپنے گھر کب جاؤ گے؟
ابراہیم: بس میں جارہا ہوں نماز کے بعد۔۔ تم اپنی امی کو بتا دینا ویسے میں نے انھیں بتایا تھا اور وہ آج شام تک پاکستان پہنچ جایں گی۔
عمر: اووو! تمھیں امی نے بتایا وہ آرہی ہیں میرا تو وہ فون تک نہیں اٹھاتی۔
ابراہیم: ایسی بات نہیں ہے پہلے انھوں نے تمھیں ہی کال کی تھی جب تم نے نہیں اٹھایا فون پھر مجھے کی۔
عمر: اوو ہاں! میں فون بند کرکے سوتا ہوں تاکہ کوی پریشان نہیں کرے۔
اچھا خیرتم مجھے ایک بات تو بتاؤ تمھارے پاس کچھ بھی نہیں ہے نہ شہرت نہ عزت نہ کوی کامیابی پھر بھی تم خدا سے ہر وقت باتیں کرتے ہو کھبی یہ بھی کہو مجھے کامیاب کردے اب دیکھو نہ ذرا لوگ تمھارے بارے میں کیا عجیب باتیں کرتے ہیں تمھیں ان سب کی باتیں بری نہیں لگتی۔ (بالوں میں ہاتھ ڈالتے ہوے اپنا جملہ آگے بولتا ہے) مجھے دیکھو سکون والی زندگی ہے لوگ تو میری مثالیں دیتے ہیں۔
ابراہیم: تم واقعی کامیاب ہو؟
عمر: ہاں تو مجھے ساری یونیورسٹی جانتی ہے۔۔۔
ابراہیم: ہنستے ہوے ہاں پھر تم واقعی کامیاب ہو (طنزیہ)
عمر: تم میرا اب مذاق مت بناو اتنی ساری باتیں کرتے ہو خدا سے کبھی اپنے لیے بھی دعا کرلیا کرو۔
ابراہیم: خدا نے مجھے سجدے کی توفیق دی ہے یہی میرے لیے کامیابی ہے۔ اور ہاں مجھے اپنی چاہت نہیں چاہیے مجھے اسکی چاہت چاہیے میں اپنے معملات اسکے سپرد کردیتا ہوں پھر تم دیکھنا وہ ایک دن مجھے وہ اپنے "کن" کا کرشمہ دیکھاے گا۔
عمر: حیرت سے اسے دیکھتا ہے اور پھر ایک دم سے کہتا ہے یہ خدا کی چاہت کیا ہوتی ہے؟
ابراہیم: خدا کی چاہت یہ ہے کہ (ابھی وہ اپنا جملہ مکمل ہی کر رہا ہوتا ہے ایک دم چپ ہوجاتا ہے)
عمر: چپ کیوں ہو بولو نہ خدا کی چاہت کیا ہے؟ ابراہیم: مسکرتے ہوے کہتا ہے پہلے جاکر حاضری لگواؤ وہ بلا رہا ہے(دور سے اذان کی آواز آرہی ہوتی ہے) پوری رات ہے ابھی میں تمھیں نماز کے بعد خدا اور اسکے بندہ کی چاہت بتاوں گا۔ (وہ یہ کہۂ کر اٹھ جاتا ہے)
عمر: سنو تو سہی میں شام تک ترکی چلا جاوں گا۔
ابراہیم: بات کرتے ہیں نماز کے بعد اب ساتھ ذرا تم بھی آجاو۔ تم راستے میں سے کچھ اپنے لیے کھانے پینے کے لیے لے لینا اور میں نماز پڑھ لوں گا۔
عمر: اب ایسا بھی نہیں ہے تمھاری کل رات والی باتیں ابھی تک میرے ذہن میں ہیں۔۔ رکو میں بھی تمھارے ساتھ آتا ہوں۔
(عمر مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ سوچ رہا ہوتا ہے میں بھی اسلام آباد میں رہتا ہوں یہ مسجد کتنی بدل گی ہے)
عمر:( سنو غسل خانہ کہا ہے تم تو وضو کرکے آے ہو)
ابراہیم: تو تم بھی کر کے آتے۔۔۔
عمر: ارے میرا تو ایسے ہی موڈ( Mood)بن گیا تھا اب بتاؤ کہا ہے؟
( وضو کے دوران عمر ابراہیم سے کہتا ہے ) ذرا سنو یہ مسجد اتنی بدل کیسے گی؟
ابراہیم: آخری بار مسجد کب آے تھے؟
عمر: میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (وہ ایک دم گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے)
ابراہیم: چلو اب وقت نہیں ضایع کرو نماز کے لیے آؤ۔
عمر نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد سے باہر ابراہیم کا انتظار کر رہا تھا اور بار بار اسکی نگاہ ابراہیم پر ہی ہوتی ہے۔ ابراہیم جو کہ اپنی دعا سجدہ میں کررہا تھا۔۔۔ یہ یوں کہہ لو کہ وہ سجدہ میں جاکر خدا سے باتیں کر رہا ہو۔ کچھ وقت بعد ہی ابراہیم باہر آیا۔
(عمر مسلسل اپنے دوست کو غور سے دیکھ رہا تھا اور اسکے ذہن میں بہت سے سوال تھے۔ )
ابراہیم: اچھا تو تم آج ترکی جارہے ہو؟
عمر:ہاں جلد لوٹ آؤ گا۔
ابراہیم: ویسے تو تم خوب جانتے ہو مگر پھر بھی کہۂ رہا ہوں وہاں کا ایک خوبصورت شہر "استنبول"Istanbul گھوم کر آنا۔
عمر: ابراہیم کو حیرت سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور ایک دم کہتا ہے ہاں ضرور۔ ویسے میری پیدائش استنبول کی ہی ہے۔ اور میں اپنے گھر ہی جارہا ہوں۔
ابراہیم: او اچھا!مجھے پتہ نہیں تھا۔
ابراہیم: چلو میں پھر چلتا ہوں خدا حافظ۔
عمر: ٹھیک۔
ابراہیم:اچھا سنو میرا فون خراب ہے جب تم لوٹ کر آؤ تو مجھ سے لازمی ملنے آنا۔
عمر: سنو ابراہیم! تم سے ایک بات پوچھو؟
ابراہیم: ہاں ضرور۔
عمر: تم کیا مانگ رہے تھے سجدہ میں؟
ابراہیم: (مسکراتے ہوے) تم نے تو کہا تھا خدا سے اپنے لیے مانگو تو بس اپنے لیے کامیابی مانگ رہا تھا۔ عمر: اچھا ایک بات بتاو تم نے کل رات مجھ سے کہا تھا کہ جو کچھ میرے پاس ہے یہ ساری عزت خدا کی ہے۔۔۔ اب تم مجھے مطلب سمجھاو گے اپنی اس بات کا کہ جو کچھ میرے پاس ہے یہ عزت یہ شہرت یہ سب خدا کی ہے؟
ابراہیم: (مسکراتے ہوے) بے شک! " جو کوی عزت چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری خدا کی ہے"(سورۃ فاطر٣٥:١۰)
یہ کہہ کر ابراہیم چلا جاتا ہے۔
عمر: ایک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ اور گھر پہنچ کر فوراً ہی اپنے کمرے میں جاتا ہے۔ اسکے ذہن میں بہت سے سوال ہوتے ہیں وہ اپنے آپ سے بار بار ایک ہی سوال کر رہا ہوتا ہے کہ کیا ابراہیم کی باتیں ٹھیک تھی؟ کیا میں واقعی کامیاب ہوں یا نہیں؟
اس گہری سوچ میں اسے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اتنی دیر میں اسکے کمرہ کا دروازہ بجتا ہے۔ عمر باہر آجاؤ آپکے دوست بھی آگے ہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجاے۔
عمر: جی امی آیا۔ (ارے امی آگی کیا)اور خود ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا کہہ رہا یہ سب ابراہیم کی وجہ سے ہوا مجھے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔
(عمر تیار ہوکر کمرہ سے باہر نکلتا ہےاور فوراً ہی اپنے دوستوں کو کہتا ہے چلو پہلے ہی کافی دیر ہوگی ہے وہ اس وقت اتنی جلدی میں ہوتا ہے اسے یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ اسکی امی سعودی سےکب آی)
امی: عمر بیٹا آپکے دوست ہیں سلام کرو تھوڑی دیر بیٹھو پھر چلے جانا۔
عمر: ہمیں پہلے ہی دیر ہوگی ہے۔
معاذ: ارے دوست سلام دعا تو کرلو پھر چلتے ہیں اتنی بھی کیا جلدی ہے آپ انٹی سے ملے؟
عمر: او سوری! (oh sorry) اسلام و علیکم (طنزیہ لہجے) اب سب چلو۔ یہ کہہ کر وہ باہر چلا جاتا ہے۔
اس روم میں بیٹھنے والے سب لوگ عمر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
معاذ: اچھا چلیں آنٹی خدا حافظ چلتے ہیں۔
امی: خدا حافظ بیٹا۔۔۔۔ سنو معاذ
معاذ:جی آنٹی
امی: بیٹا عمر کا خیال رکھنا مجھے وہ کچھ پریشان لگ رہا ہے۔
معاذ: جی ضرور آپ پریشان نہیں ہوں۔
عمر: معاذ آرہے ہو؟ یہ چھوڑ جاو؟
معاذ: جی آیا بھای۔ اوکے (ok) آنٹی چلتا ہوں۔
معاذ: سوری یار وہ آنٹی سے بات۔۔۔۔
عمر: (بات کاٹتے ہوے )گاڑی کا گیٹ بند کرو مگر آہستہ تمھیں پتا ہے کتنی مہنگی ہے۔
معاذ: ہمیں کیا پتہ ہم تو یونیورسٹی بھی بس میں آتے تھے۔
اۂیرپورٹ پہنچ کر یہ پانچ دوست اپنی فلاٹ (flight) کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اتنے میں اذان کی آواز آتی ہے۔
معاذ: چلو نماز پڑھ لیتے ہیں عمر۔
عمر: تم سب جاؤ میرے سر میں درد ہے۔
معاذ:(اپنے جملے کو زور سے بولتا ہے) میں نماز کا کہہ رہا ہوں۔
عمر: ہاں مجھے سمجھ آیا میں کہہ رہا ہوں تم سب جاو۔
معاذ: اچھا چلو تم سب چلو۔
کچھ وقت بعد۔۔۔۔۔
معاذ: عمر کیا بات ہے پریشان ہو تم؟
عمر: معاذ تم ابراہیم کو جانتے ہو؟
معاذ: ہاں وہی نہ جو کلاس کا سب سے شریف لڑکا تھا لیکن کلاس میں ہمیشہ سے اسی نے پوزیشن لی ہے یہ تو (record) رہا ہے اسکا۔
عمر: بس بس۔۔۔ میں اسکے بارے میں ہی بات کر رہا ہوں مگر اس بار پوزیشن میں نے لی تھی۔
معاذ: او ہاں! مگر ہوا کیا ہے ویسے؟
عمر: یار وہ کچھ عجیب باتیں کرتا ہے۔ آج صبح میں نے نماز پڑھی اسکے ساتھ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوگیا مگر وہ دیر تک سجدہ میں رہا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خدا سے باتیں کر رہا ہو۔
معاذ: اچھا تو اس میں عجیب کیا ہے؟
عمر: تم سمجھ نہیں رہےکچھ الگ تھا سجدہ میں جتنے سکون سے وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ آج سے پہلےمیں نے اسے کھبی ایسا دیکھا ہی نہیں۔
معاذ: (ہنستے ہوے) ہاں تو تم نے آج سے پہلے کھبی نماز بھی تو نہیں پڑھی۔
عمر: مذاق مت بناو ویسے مجھے ایک چیز بار بار پریشان کر رہی ہے۔
معاذ: کیا؟
عمر: میں بھی اسلام آباد میں رہتا ہوں اپنی 15 سال کی عمر میں اپنی ساری فیملی(family) کے ساتھ ترکی چھوڑ کر پاکستان آگیا تھا اور اتنے سال سے میں اسلام آباد میں ہی ہوں مگر وہ مسجد اتنی کیسے بدل گی؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس مسجد کو کھبی دیکھا ہی نہیں۔
معاذ: بات کاٹتے ہوے اتنا مت سوچو۔ اچھا یہ بتاو آخری بار ترکی کب گے تھے؟
عمر: میں آخری دفعہ 10 سال پہلے گیا تھا۔ اسکے بعد سے کھبی جانا ہی نہیں ہوا۔
معاذ: اچھا اور آنٹی کب آئ سعودی سے؟
عمر: شاید جب میں نماز کےلیے باہر گیا تھا تو میرے پیچھے سے آی ویسے انھیں آج آنا ہی تھا۔ اس وجہ سے تو میں کل رات ابراہیم کے ساتھ تھا۔
معاذ: عمر اگر تم اکیلے تھے تو مجھے بتا دیتے ہم ساتھ رات گزار لیتے ویسے بھی تو ہماری آج کی فلاٹ(flight) تھی۔
عمر: ابراہیم میری امی کا سب سے پسندیدہ لڑکا ہے۔ امی کے کہنے پر ہی وہ گھر آیا تھا۔ میں نے تو بہت منع کیا تھا مگر امی نے کہا تم رات تک باہر رہو گے اپنے دوستو کے ساتھ ایک تو میری امی کو مجھ پر یقین ہی نہیں ہے اسلے تو وہ آیا تھا اور مجھے اسکی وجہ سے گھر بھی جلدی آنا پڑا۔
معاذ: پھر تو دونوں دوستوں نے بڑا مزہ کیا ہوگا(ہسنتے ہوے)
عمر: نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں تھا تم تو جانتے ہو وہ مجھے کچھ خاص پسند نہیں۔ بس ابو کے دوست کا بیٹا ہے اوراپنے نانا نانی کے گھر اسلام آباد میں رہتا ہے اور یہاں پڑھنے آیا ہے تو میں اس لیے دعا سلام کرتا ہوں۔
معاذ: اوو!
عمر: اصل میں ہمارے گھر جو کام کرتے ہیں رحمت انکل انکو کسی کام سے اپنے گاؤں جانا تھا اسلیے امی نے ایک رات کے لیے ابراہیم کو کہا تھا کہ وہ آجاے۔
معاذ: اوکے اتنی وضاحت نہیں کرو۔
ابراہیم: میں سو رہا ہوں پہنچ جاے تو جگا دینا۔
کچھ وقت بعد۔۔۔۔۔۔
معاذ: ہم۔ پہنچ گے ویسے تمھارے گھر کون ہوگا؟
عمر: بانو باجی اور انکا بیٹا امی نے بتادیا تھا کہ ہم سب آرہے ہیں۔ تاکہ وہ کھانا پینا اور صفای وغیرہ دیکھ لیں۔
معاذ: اب یہ بانو باجی کون ہیں؟
عمر: بانو باجی اور رحمت انکل ہمارے گھر کے پرانے ملازم ہیں رحمت انکل ہمارے ساتھ آگے تھے مگر بانو باجی کی فیملی ترکی میں ہی ہے اسلیے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئ تھی۔ اور میں نے اپنے بچپن کا سارا وقت بانو باجی کے ساتھ گزرا ہے ایسا مجھے امی نے بتایا یقین کرو تو مجھے کچھ یاد نہیں ایسی کوی بات۔۔ (بات کرتے کرتے عمر کی نظر گارڈن Garden پر پڑتی ہے وہاں ایک لڑکا صفای کر رہا تھا)
سلیم: ارے عمر آگہے تم امی تمھارا ہی انتظار کر رہی تھی۔ امی دیکھیں عمر آگیا۔ (عمر اس کو بڑی ہی حیرت سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ سلیم کو جانتا ہی نہ ہو)
بانو: کتنے بڑے ہوگے ہو عمر گھر میں سب کیسے ہیں تمھاری امی ابو اور تمھاری بہن قونین کی وکالت ختم ہوگی؟
عمر بات کاٹتے ہوے ہم سب تھگ گے ہیں لمبا سفر تھا بعد میں بات کریں گے۔
بانو: چلو ٹھیک ہے تم سب کا کمرہ تیار ہے۔
معاذ: عمر تمھیں ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔
عمر: ابھی ہم آے ہیں تم آتے ہی شروع ہوگے۔ بس کردو مجھے ابراہیم کی طرح مت سمجھاو وہ بھی مجھے ہر بات پر یہی کہتا ہے یہ نہیں وہ نہیں۔ بس میں تنگ آگیا ہوں۔ مجھے میری زندگی جینے دو۔ (please)۔
معاذ: اچھا تم آرام کرلو پھر شام میں باہر چلتے ہیں
بانو: آپ لوگ کہاں جارہے ہو؟ میں نے کھانا تیار کیا ہوا ہے۔
عمر: ہم لوگ باہر جارہے ہیں اور جب میں آپ سے کہو تب ہی کچھ بنایا کریں۔
بانو: ٹھیک ہے بیٹا مگر جلد ہی آجانا۔
عمر: اف جی ضرور! (عمر اور اسکے دوست دریا Bosphorus river کے پاس بیٹھے ہوےباتیں کر رہے تھے ایک دم عمر کہتا ہے یہ چاند کتنا خوبصورت ہے معاذ میرا guitar دینا بیگ سے نکال کر) اسکی بات کاٹتے ہوے معاذ عمر سے کہتا ہے: بہت دن سے دیکھ رہا ہوں کیا ہوگیا ہے تمھیں جب سے تم ابراہیم کے پاس سے آے ہو بہت شریشان ہو غصہ بھی بہت ہے۔
جاری۔۔۔