امید کرتی ہوں مصرے سے آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ میری ساری توجہ عورتوں کے حقوق عزت وقار اور عظیم ہستی کی طرف ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں مرد ذات کے بارے میں منفی سوچ رکھتی ہوں۔ بلکہ خدا نے مرد کو ہمارے لیے محافظ بنا کر بھیجا ہے۔ باپ کی صورت میں بھائی کی صورت اور شوہر کی صورت میں۔ مگر کچھ ایسے مردوں کی سوچ نے جنم لیا ہوا ہے کہ کچھ مردوں کی وجہ سے عورتوں کی عزت پامال ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر کچھ عرصہ پیچھے چلے جائیں تو وہاں بیٹیوں کے ساتھ بدتر سلوک کرتے تھے مگر افسوس صد افسوس! آج بھی ان سے زیادہ بدتر سلوک کرنے والے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ جب میں اپنے معاشرے میں نظر ڈالتی ہوں تو مجھے اپنے معاشرے کی حوا میں ان بچیوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جنہیں ہمارے معاشرے کہ درندے کھبی ڈرا کر، کھبی خوفزدہ کرکے کھبی جلا کر ماردیتے ہیں۔ کچھ ایسے کم تر سوچ کے مالک ہیں جو بیٹیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے اور کچھ ایسی مظلوم عورتیں ہیں کہ ان کا خدا کو سوا کوی اور سہارا نہیں۔
ہم اپنے آپکو ایک پڑھا لکھا معاشرہ سمجھتے ہیں لیکن کوی انکے حق کے لیے آواز نہیں بنتا۔
ہم آپس میں تو بڑے بڑے فیصلے کرلیتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ ہم کمرہ بند کرے چیختے رہتے ہیں مگر بولتے کچھ نہیں۔
ذرا سا سوچ کر دیکھیں کہ ہماری آواز اٹھانے سے کسی بچی کا بچپن بچ سکتا ہے۔ ہمارے انکے حق میں بولنے سے بہت سی لڑکیاں پڑھ لکھ کر اس ملک کا مستقبل بن سکتی ہیں۔
ذرا سی اپنی سوچ بڑی کریں اس معاشرے میں اگر درندہ ہیں تو انکو آپ نے ختم کرنا ہے ان سے ڈرنا نہیں ہے انکے خلاف آواز اٹھانی ہے۔