1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. کپتان کی ’’جزوی معرکے‘‘ کیلئے بھی تیاریاں مکمل ہیں

کپتان کی ’’جزوی معرکے‘‘ کیلئے بھی تیاریاں مکمل ہیں

محمود غزنوی سے مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر تک وسطی ایشیاء سے چلے تمام دلاور دلّی پر قبضہ کرنے سے پہلے افغانستان پرحکمران ہوکر دربارداری کی’’’ریہرسل‘‘ کرتے تھے۔ رموز مملکت کی تمام باریکیوں سے روشناس ہوجانے کے بعد انہیں خیبر سے گزرکراٹک پر دریائے سندھ کے کنارے پہنچنا ہوتا تھا۔ اس دریا کو پار کرنے کی تیاریوں کے بعد کافی سرعت کے ساتھ لاہور پہنچ کر وہاں لمبا پڑائو کرنا ضروری ہو جاتا۔

دلّی کے دربار پر قابض ہونے کے لئے دوسرا راستہ قندھار سے ملتان پہنچنا تھا۔ لاہور یا ملتان میں اپنے پڑائو کے دوران دلّی میں بیٹھ کر پورے ہندوستان پر حکمرانی کا خواہش مند دلاور اپنے لئے مقامی حلیفوں کی تلاش میں مصروف رہتا۔ وہ حلیف آج کے دور کے Electables ہوا کرتے تھے۔ بالآخر ان کی مناسب تعداد دلاور کو میسر ہوجاتی تو وہ دلّی کا رُخ کرتا جس کے درروازے کھل جانے کی یقین دہانیاں سازشوں اور مراعات کے وعدوں کے ساتھ لاہور یا ملتان میں پڑائو کے درمیان حاصل کی جاچکی ہوتی تھیں۔

عمران خان صاحب نے محمود غزنوی کی طرح اٹک کے اس پار اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے اسلام آباد پر ابھی تک سترہ حملے تو نہیں کئے۔ شہرِ اقتدار پر قبضے کی کوشش وہ اگرچہ 2013ء سے دوبار کرچکے ہیں۔ پہلی سنجیدہ کوشش اگست 2014ء کا اسلام آباد میں دیادھرنا تھا۔ اس دھرنے کی ہمارے ’’آزاد‘‘ ٹی وی چینلوں نے جو اشتہارات کے لئے مختص کئے ایک سکینڈ کو بھی قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اپنے Top Ratings ٹاک شوز کو درمیان میں کٹ کرکے Live Coverage کی تھی۔ ’’ایمپائر‘‘ نے اس کے باوجود اُنگلی مگر کھڑی نہ کی۔ بالآخر پشاور میں APS کا سانحہ ہوگیا۔

عمران خان بھی دریں اثناء اپنا گھر بسانے کو تیار ہوچکے تھے۔ ازدواجی زندگی کو برقرار اور خوش گوار رکھنے کے لئے گیزر سے گرم پانی کی دستیابی بھی ضروری تھی۔ اس لئے بجلی کے بل ادا کرنا پڑے۔ سول نافرمانی کی تحریک کو بھلا دینا پڑا۔ ہمت ہمارے کپتان نے مگر بالکل نہیں ہاری۔ اسلام آباد پر اپنی نگاہیں مرتکز رکھیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے، ہمارے ضدی کپتان کو میرا ربّ مواقع بھی کثرت سے فراہم کرتا رہتا ہے۔ اپنے ’’مرشد‘‘ یا ’’پیر‘‘ اگرچہ وہ تواتر سے بدلتے رہتے ہیں۔ 4 اپریل 2016ء کی صبح جب پانامہ دستاویزات منکشف ہوئیںتو ان کے لئے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس تک پہنچنے کے لئے امکانات کا ایک اور درکھل گیا۔ اب کی بار اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس تک پہنچنے کا راستہ البتہ ’’ایمپائر‘‘ کی اُنگلی نے نہیں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر بنانا تھا۔ کئی مہینوں کی جدوجہد اور اسلام آباد کے لاک ڈائون نے جسٹس جمالی کے سپریم کورٹ کو بالآخر پانامہ دستاویزات کو کھنگالنے پر مجبور کردیا۔ ان کی ا پنے عہدے سے رخصتی کے بعد بھی یہ چھان پھٹک جاری رہی۔ روزانہ سماعت کی بنیادوں پر چلے مقدمے نے ہماری ٹی وی سکرینوں پر خوب رونق لگائی۔ بالآخر 20 اپریل 2017ء کو ایک فیصلہ آگیا۔ دوعزت مآب ججوں نے شریف خاندان کو ’’گاڈ فادر‘‘ والی حرکتوں کا مرتکب ٹھہرایا۔ پانچ رکنی بنچ کے بقیہ تین معزز ججوں نے البتہ مناسب یہ سمجھا کہ ’’طریقہ واردات‘‘ کو پوری طرح سمجھے بغیر وزیر اعظم کو ’’گاڈ فادر‘‘ ٹھہراکر ان کے عہدے سے فارغ نہ کیا جائے۔

ٹھوس اور تفصیلی سوالات کی ایک فہرست مرتب ہوئی۔ ان دنوں ہمارے مختلف النوع اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈ رہی ہے۔ یہ ٹیم جس سرعت سے کام کر رہی ہے اس سے پیغام یہ مل رہا ہے کہ اس کے لئے متعین 60 دنوں کے دوران ہی پانامہ سے متعلق سوالات کا جواب ڈھونڈ لیا جائے گا۔

مشترکہ تحقیق کی ٹیم بہت رازداری سے اپنے کام میں مصروف ہے۔ ہر 15 دن بعد سربمہر لفافوں میں اپنی ’’پراگرس رپورٹ‘‘ سپریم کورٹ کے روبرو پیش کرتی ہے۔ ہم ایسے عامیوں کو ہرگز خبر نہیں کہ تحقیقات کا رُخ کس سمت ہے۔ ’’ذرائع‘‘ ہمارے ہاں مگر بہت باخبر ہیں۔ ان کے پاس سمارٹ فونز بھی ہیں۔ جن پر ایک کم بخت ماری App آچکی ہےWhatsapp۔ اس کے ذریعے شریف خاندان کے لئے خیر کی خبریں ہرگز نہیں آ رہیں۔ صبح گیا شام گیا والی فضا ہے۔

عمران خان صاحب اسی لئے تو کافی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ اسلام آباد کی قیامت خیز گرمی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے نتھیاگلی کے ٹھنڈے ماحول میں تشریف لے جاچکے ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں ربّ سے لولگانے کے لئے تھوڑی تنہائی ویسے بھی ضروری تھی۔ اس تنہائی میں دین اور دُنیا کا امتزاج رکھنا مگر ضروری ہے۔ پانامہ کے بارے میں حتمی فیصلہ شاید جولائی کے اختتام تک آجائے اور شاید اس کی وجہ سے قبل ازوقت انتخابات کروانا پڑیں تو ان کے لئے تیاری بھی ضروری ہے۔ اس تیاری کا بھرپور اظہار ان دنوں ماضی میں پیپلزپارٹی کے پنجاب سے بڑے نام مانے افراد کی بدولت ہورہا تھا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بعد منگل کو افطار سے قبل ہمارے بہت ہی نرم گفتار دوست نذر گوندل صاحب بھی عمران خان صاحب کی آشیرواد لینے نتھیاگلی پہنچ گئے۔ اب ’’کچھ دانے‘‘ مسلم لیگ نون سے متوقع ہیں۔

نتھیاگلی میں اپنے پڑائو کے دوران، قصہ مختصر، عمران خان صاحب اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس پر عیدالفطر کے بعد شاید آخری یلغار کی تیاری کررہے ہیں۔ شہر اقتدار کے دروازے مصطفیٰ کھر، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور نذرگوندل صاحب جیسے Electables کی معاونت سے اب کی بار ہمارے کپتان کے سواگت کے لئے چوپٹ کھل جائیں گے۔ اگرچہ میرا وسوسوں بھرا دل ابھی تک وہ آئینی طریقہ نہیں ڈھونڈ پایا ہے جو پانامہ سکینڈل کی بدولت نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے بیک وقت انتخابات کو یقینی بنا پائے۔

نواز شریف اپنے منصب کے لئے نااہل قرار پائے تو بھی پرویز خٹک اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ شہباز شریف بھی پنجاب کے ’’خادم اعلیٰ‘‘ ہونے کی دہائی مچاتے رہیں گے۔ مراد علی شاہ کا نام پانامہ پیپرز میں نہیں آیا۔ بلوچستان کے سردارثناء اللہ زہری تو ویسے بھی کونے میں بیٹھے دہی کھارہے ہیں۔

یہ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور ان کی اسمبلیاں پانامہ کیس کی زدمیں نہیں ہیں۔ نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کے بعد قبل از وقت انتخابات ’’آئینی طور‘‘ پر لہذا صرف قومی اسمبلی ہی کے لئے ممکن ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ موجودہ وزیر اعظم کی ممکنہ نااہلی کے بعد مسلم لیگ نون کوئی ’’راجہ پرویز اشرف، دینے کو تیار نہ ہو۔

تیاری ہمارے کپتان کی مگر اس ’’جزوی معرکے‘‘ کے لئے بھی مکمل ہے۔ عیدالفطر کی خوشیوں سے فارغ ہوکر ہم ان کی لگائی نئی گیم کو دیکھنے کے لئے بے چین ہیں۔ جو T-20 ہوگا اس کا لطف بھی خوب آئے گا۔ ٹی وی سکرینوں پر رونق لگی رہے گی۔ اس دوران ربّ کریم سے فریاد ہے تو صرف اتنی ہے کہ امریکہ کا جنرل میک ماسٹر جسے ٹرمپ نے بہت چائو سے اپنا مشیر برائے قومی سلامتی بنایا ہے افغانستان کے Final Solution کے لئے کسی ’’یلغار‘‘ کا فیصلہ نہ کر بیٹھے۔