نواز حکومت ان دنوں انگریزی والے Third Time Lucky کی لذت سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ احتجاجی تحریک کے ذریعے عمران خان اور تحریک انصاف اسے 2014ء کے بعد نومبر 2016 میں بھی گھر بھیجنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ سال شروع ہوتے ہی اپنی بے بسی پر پریشان ہوئی تحریک انصاف کوپانامہ جیسا دھماکہ خیز سکینڈل مل گیا تھا۔ وہ اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھاپائی جبکہ پیپلز پارٹی کے چودھری اعتزاز احسن اس کی معاونت کو دل وجان سے تیار تھے۔ کئی بار مجھے یہ بھی محسوس ہوا تھا کہ 2007ء کی عدلیہ بحالی جیسی تحریک شروع ہونے والی ہے۔ اعتزاز احسن ایک بار پھر جیپ کے ڈرائیور بنے اس کی قیادت کررہے ہوں گے۔ ان کے بائیں ہاتھ والی نشست پر اس بار مگر افتخار چودھری کی بجائے عمران خان بیٹھے ہوں گے۔ دمادم مست قلندر کی دھن چھڑ گئی تو بلاول بھٹو زرداری بھی کسی کنٹینرپران دونوں کے درمیان کھڑے نظر آئیں گے۔
عمران خان کوشاید چودھری اعتزاز احسن کی ڈرائیونگ پر بھروسہ کرنا مناسب نظر نہ آیا۔ حامد خان کے ذریعے سپریم کورٹ چلے گئے۔ حامد خان تحریک انصاف کے دل وجان سے وفادار ہیں۔ عدالتوں کے روبرومقدمات کومگر صرف وکلاءکی طرح پیش کرنے کے عادی۔ وہ ہمارے ایک گئے وقتوں کے ہیرو محمد علی کی طرح ”جج صاحب“ کو دبنگ آواز میں مخاطب کرتے ہوئے دھواں دھار مکالمے ادا کرنے کے قابل نہیں۔
بالآخر نعیم بخاری سے رجوع کرنا پڑا۔ اگرچہ عمران خان کے کئی متوالوں کی شدید خواہش تھی کہ عدالتی جنگ کی کمان ڈاکٹر بابر اعوان کے سپرد کردی جائے۔ پوٹھوہار کے نرم دل اعوان محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو احتساب عدالتوں سے ”تاریخ پر تاریخ“ لے کر بچاتے رہے تھے۔سچی یا جھوٹی بنیادوں پر بنائے ان مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے بالآخر جنرل مشرف سے لیکن NRO ہی کرنا پڑا تھا۔ افتخار چودھری نے جب اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ سوائے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم ہاﺅس سے توہینِ عدالت کے جرم میں نکالنے کے وہ ”قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانے“ کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کر پائے۔
اصل خدشہ نواز حکومت کو البتہ یہ تھا کہ جنرل راحیل شریف کہیں ”جانے کی ضد نہ کرو“ والی فریاد پر عمل نہ کر بیٹھیں۔یہ بات اگرچہ حقیقت ہے کہ نواز شریف شاید وہ واحد حکومتی رہ نما تھے جو ایک لمحے کو بھی اس امکان سے کبھی نہیں گھبرائے۔ ستمبر 2016ء کے وسط میں انہوں نے طے کرلیا تھا کہ جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں ہرگز توسیع نہیں کی جائے گی۔ جنرل باجوہ کو ان کی جگہ بٹھانے کا فیصلہ بھی ان ہی دنوں ہوگیا تھا۔
اس فیصلے کی بابت مگر نواز شریف کے قریب ترین ہونے کے دعوے داروں کو بھی بھنک تک نہ پڑی۔ میں کافی سوچ بچار اور تھوڑی تحقیق کے بعد یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ شہباز صاحب اور چودھری نثار علی خان بھی وزیراعظم کی سوچ سے پوری طرح آگاہ نہ تھے۔ پرویز مشرف کو وقتِ معینہ سے پہلے ہٹاکر جنرل ضیاالدین بٹ کو بٹھانے کا فیصلہ بھی انہیں اعتماد میں لئے بغیر لیا گیا تھا۔ اس وقت مگر یہ فیصلہ الٹا نواز شریف کے گلے پڑگیا۔ اب کی بار قسمت کی دیوی مہربان رہی کیونکہ نواز شریف نے اپنے کارڈ بہت ہی دھیمے انداز میں مناسب وقت پر کھیلے تھے۔
اپنے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز میں بھی نواز شریف کا رویہ ایسا ہی تھا۔ سردار فاروق خان لغاری مرحوم نے اپنی ہی جماعت کی حکومت کو برطرف کرکے نئے انتخابات کی راہ بنائی تھی۔غلام اسحاق خان نے جب محترمہ کی پہلی حکومت کو آٹھویں ترمیم کے اختیارات کی بدولت فارغ کیا تھا تو سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو جائز قرار دیا۔ یہی اقدام جب پہلی نواز حکومت کے خلاف اٹھایا گیا تو جسٹس نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم ٹھہرا کر ”تاریخ“ بنا دی تھی۔ سندھ سے آئے جسٹس سجاد علی شاہ نے مگر اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے استعمال کو ناجائز ٹھہرانے والے یہ سجاد علی شاہ مگر محترمہ کو ”انصاف“ فراہم کرنے کو تیار نہ تھے۔ نواز شریف ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے۔
وزیراعظم بنتے ہی نواز شریف نے سردار فاروق خان لغاری اور سجاد علی شاہ کی فراغت پر کام شرو ع کر دیا۔ ہمارے ہاں ”کاکڑ فارمولے“ کا بہت ذکر ہوتا ہے۔ یہ بات ابھی تک کھل کر بیان نہیں ہوئی کہ جنرل جہانگیر کرامت نے کیسے انتہائی خاموشی اور بردباری سے بہت دیانت داری کے ساتھ پاکستان میں سیاسی استحکام کی خاطر نواز شریف کو فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کی ”احسان مندی“ سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ یہ کردار ادا کرنے کے باوجود انہیں اکتوبر1998ء میں بظاہر ایک تقریر کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ جنرل مشرف ان کی جگہ تشریف لائے۔
جنرل مشرف کو اپنی تعیناتی کے پہلے دن ہی سے لیکن یہ احساس ہونا شروع ہوگیا کہ انہیں ”نواز شریف کا لگایا“ہوا آرمی چیف سمجھاجارہا ہے۔ وہ اپنی ”خودمختاری“ دکھانے کو بے چین ہونا شروع ہوگئے۔کارگل کردیا اور بالآخر 12 اکتوبر1999ء بھی۔ نواز شریف اور ان کے Power Manager بنے مصاحبین جنرل مشرف کی بے چینی کا مگر قت پر ا دراک نہ کر پائے اور نہ ہی اسے Check کرنے کا کوئی مناسب بندوبست سوچ پائے۔
نظر بظاہر نواز شریف کے لئے اس وقت ”ستے خیراں“ ہیں۔ عمران خان صاحب کی جماعت قومی اسمبلی میں لوٹ آئی ہے۔ اب تو بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری بھی قومی اسمبلی کو ”وقار بخشنے“اس ہاﺅس میں تشریف لانے کو تیار ہیں۔پاک آرمی اورسپریم کورٹ کی کمان اور سربراہی اس وقت اپنے کام سے کام رکھنے والے انتہائی پروفیشنل افراد کے پاس ہے۔ نواز حکومت کے چند ضرورت سے زیادہ متحرک عناصر ”ستے خیراں“ کی اس فضاءکو مگر ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔
فی الوقت میں نام لے کر ٹھوس حوالے دینے سے اجتناب برت رہا ہوں۔ اقتدار کے کھیل کو بہت قریب سے دیکھ کر کئی دہائیوں تک رپورٹنگ کرنے کے بعد عمر کے اس حصے میں صرف ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے سمجھ چکا ہوں کہ میرے ملک کو سیاسی استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ اس ضرورت کا علم اورشدید احساس مجھے نام لینے اور ٹھوس حوالے دینے سے روک رہا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم کے چند ضرورت سے زیادہ متحرک ہوئے عناصر کی فرعونوں جیسی رعونت اکثر اشتعال دلاتی ہے۔ دل مچل اُٹھتا ہے کہ ان کی حقیقت کو کھل کر بیان کردوں۔ قومی استحکام کی خواہش مگر خاموش رہنے پر مجبور کردیتی ہے۔
صرف یہ عرض کرتے ہوئے آج کا کالم ختم کر رہا ہوں کہ نواز شریف کے چند ضرورت سے زیادہ متحرک ہوئے عناصر آئندہ آنے والے چند ہی دنوں میں کچھ ایسے اقدامات لینے کو بے چین نظر آ رہے ہیں جو منتخب حکومت کو اولاً سپریم کورٹ اور بالآخر عسکری قیادت کے ساتھ تناﺅ کی صورتِ حال میں دھکیل دیں گے۔
نواز شریف کو مشورے دینا میرا فریضہ نہیں۔ میرے رزق کا دارومدار صرف اور صرف صحافت پر ہے۔ جن معاملات کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان کی تفصیلات نہ بیان کرتے ہوئے میں نے درحقیقت اپنے صحافیانہ فرائض سے پہلو تہی کی ہے۔اس سے زیادہ کی توقع مجھ سے نہ رکھی جائے۔