31دسمبر کے بعد یکم جنوری کا آنا میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے مثال کے طورپر 12 کے بعد 13 فروری کا آنا۔رسمِ دُنیا،موقع اور دستور مگر آپ کو زندگی کا ایک اور سال گزرجانے کا احساس دلاتے ہیں۔ مختلف دروازوں سے گزرکر جانے کسی سمت سفر کرنے کا احساس۔ ایک باب مکمل کرنے والی کیفیت۔نامعلوم کی طرف بڑھنے کا ایک اور سنگ میل جہاں کچھ دیر کو رُک کر اپنے اب تک گزارے وقت کے سودوزیاں کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے۔
اکیلے میں غمِ جہاں کا حساب کرنے بیٹھو تو فیض جیسے شاعروں کو ”تم“ بے حساب یاد آجاتے ہیں۔ میں لیکن 2016ء کی آخری رات اکیلا نہیں تھا۔میرے ساتھ دو اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم تینوں کی عمر اور پیشوں میں فرق تھا۔ زندگی کو کچھ اصولوں اور خوابوں کے ساتھ گزارنے کی ضد مگر ہمیں ایک گہرے رشتے میں پروتی تھی۔ہم میں سے ایک نے اچانک سوال کردیا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد میں دئیے دھرنے کے دوران ہم تینوں ہذیانی غصے کا شکار کیوں ہوگئے تھے۔ہم سب نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد اعتراف کیا کہ وہ دھرنا ہماری دانست میں ”ایمپائر“کی سہولت کے لئے رچایا گیا تھا۔ ایوب خان سے جنرل مشرف تک کے ادوار کابغور جائزہ لینے اور کئی صورتوں میں انہیں عذاب کی صورت بھگتنے کے بعد ملکی امور میں عسکری قیادت کی مداخلت اور کئی معاملات پر اس کی بالادستی ہم تینوں کو وسیع ترقومی مفاد کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ خلقِ خدا خوب سوچ بچار کے بعد اپنی پسند کے رہ نماﺅں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت تلے یکجاہوکر ملکی امور کو چند طے شدہ پالیسیوں کے مطابق چلائے۔ یہ پالسیاں طے کرنے کے لئے ایک بھرپور مباحثے کا اہتمام ہو۔کوئی منتخب حکومت بہتر پالیسیاں بنانے میں ناکام رہے تو بھی اسے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔یہ مدت ختم ہوجانے کے بعد عام انتخابات کے ذریعے عوام کسی حکومت کو غیر مناسب پالیسیاں بنانے کے جرم میں مناسب سزا دے سکتے ہیں۔ کسی ”ایمپائر“ کو یہ قوت واختیار ہرگز حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی منتخب حکومت کو جائز یا ناجائز وجوہات کی بناءپر گھر بھیج دے۔
2014ء کے دھرنے پر اپنے اعتراضات وتحفظات کو ہم تینوں نے بہت غیر جذباتی انداز میں بیان کیا۔ ہم اس حقیقت کے بارے میں بھی بہت خوش تھے کہ ”جانے کی ضد نہ کرو“جیسی سازشوں کے باوجود جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد عزت واحترام سے رخصت ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو بہت سکون کے ساتھ اقتدار منتقل کیا تھا۔ یہ سب ہمارے اطمینان کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ جمہوری نظام اور اس کی روایات مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہیں۔اپنے اطمینان کی وجوہات کو سادہ ترین الفاظ میں بیان کرنے کے فوری بعد مگر ہم سب نے یکسو ہوکر سوال اٹھایا کہ جسے ہم جمہوری نظام اور روایات کا استحکام سمجھ رہے ہیں وہ ایک گمراہ کن سراب تو نہیں۔ یہ سوال اٹھانا فطری تھا کیونکہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد 1860ء میں متعارف کردہ ڈپٹی کمشنرز بحال کردئیے گئے ہیں۔
اس نظام کی بحالی نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ”گڈگورننس“ کی علامت بنے شہباز صاب کو خلقِ خدا کی اجتماعی بصیرت پر قطعاَ کوئی اعتماد نہیں۔ برطانوی راج کے غیر ملکی حکمرانوں کی طرح وہ اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ عوام اپنے اچھے اور بُرے میں تمیز نہیں کرسکتے۔انہیں ترقی اور خوش حالی کی راہ پر ڈالنے کے لئے ایک سخت گیر گائیڈ کی ضرورت ہے۔ یہ گائیڈ طے کرے گا کہ عوام کو بہتر تعلیم اور صحت کے ذرائع اور ادارے فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ریاست کو اپنے وسائل میٹروبسیں،فلائی اوورز اور انڈرپاسز وغیرہ کی تعمیر کے لئے خرچ کرنا چاہیے۔
بجلی کی پیداوار بھی اشد ضروری ہے۔ آج کے زمانے میں اسے پیدا کرنے کے بے تحاشہ طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ قدرتی ماحول کی مسلسل تباہی نے مخلوقِ انسانی کے تحفظ وبقاءکے لئے مگر یہ بھی طے کردیا ہے کہ کوئلے سے بجلی بنانا ایک فوری اور آسان حل ہے۔ اس کے دور رس اثرات مگر ماحول کو تباہ کردیتے ہیں۔سورج اور تیز ہوا جن سے پاکستان مالامال ہے ان دنوں بجلی پیدا کرنے کا مقبول ترین ذریعہ بن رہے ہیں۔ کئی ماہرین معاشیات نے باقاعدہ نرخوں کے تقابل کے ساتھ یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ ان دونوں ذرائع سے بجلی بنانا دن بدن آسان اور سستا ہورہا ہے۔
ہمارے ”دیدہ ور“ کو مگر جلدی ہے۔ چینی زبان میں ان کی وجہ سے،سنا ہے”شہباز سپیڈ“والی اصطلاح بھی متعارف ہوچکی ہے۔ انہوں نے ہر صورت 2018ء سے پہلے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کو ختم کرنا ہے۔ اسے ختم کرنے کے لئے چین کی مدد سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگائے جارہے ہیں۔
ایسے کارخانے ہماری ترجیح کیوں ہیں؟ یہ سوال پانامہ۔ پانامہ کا ماتم کرتے میڈیا نے کبھی سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔ہمیں ہرگز یہ خبر نہیں کہ ایسے کارخانوں کی لاگت کیسے طے ہوتی ہے۔کسی ایک ٹھیکے دارکو دوسرے ٹھیکے دار پر ترجیح کیوں دی گئی۔ہم نے ابھی تک یہ بات بھی یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی کہ اوکاڑہ سے ساہی وال کے درمیان موجود رقبوں کو انگریز نے نہری نظام کے ذریعے زرخیز ترین خطوں میں تبدیل کیا تھا۔ ان ہی رقبوں کو بہت زیادہ دودھ دینے والی خوب صورت اور جاندار گائیں اور بھینسوں کی مختلف نسلیں تیار کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔اس علاقے میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے قدرتی ماحول کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں،اس سوال پر کبھی غور ہی نہیں ہوا۔ سوال کا تسلی بخش جواب فراہم کرنا تو بہت بعد کی بات ہے۔
کمشنری نظام کی بحالی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر غور کرتے ہوئے ہم تینوں بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ شہباز صاب عوام کے منتخب شدہ ضرور ہیں۔ رویہ انکا مگر ”وائسرانہ“ہے۔ ہماری بہتری اور خوش حالی کے منصوبے کو سوچنا وہ صرف اور صرف اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جوبات ان کے ذہن میں آجائے اس پر سوال اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے ذہن میں آئے منصوبے کو جلد از جلد مکمل ہونا چاہیے اور فوری ڈیلیوری کے لئے ان کے Toolsوہی ہیں جو برطانوی سامراج نے ہم لوگوں کو ”مہذب“بنانے کے لئے ڈپٹی کمشنروں کی صورت متعارف کروائے تھے۔
یہ بات طے کرلینے کے بعد ہم تینوں یہ سوال اٹھانے پر بھی مجبور ہوگئے کہ آیا ہمارے ملک میں جمہوری نظام وروایات واقعتا متعارف ہوکر مستحکم ہورہے ہیں یا ”دیدہ وروں“ کا صرف حلیہ بدل گیا ہے۔ گئے وقتوں میں ”دیدہ ور“خاکی وردی پہن کر ”میرے عزیز ہم وطنو“کو بہتر زندگی کے خواب دکھاتا تھا۔ اب ہم کسی عقلِ کل ”دیدہ ور“کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ بنیادی فرق کہاں ہے جو مجھے یہ گماں عطا کرے کہ ہماری زندگی کے بارے میں کئے فیصلوں پر رائے عامہ کی سوچ اور ترجیحات جاندار انداز میں حاوی ہیں؟