تقریباََ 30 برسوں سے ملکی سیاست کے بارے میں مستقل رپورٹنگ کرنے کے بعد مجھے یہ زعم لاحق ہوچکا ہے کہ ہر سیاسی سوال کے بارے میں مجھے ہر موقعہ کی غزل ”منہ زبانی“ یاد ہوتی ہے۔ اتوار کی شام سے مگر میری ”بولتی“ واقعتا بند ہوچکی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی JIT نے، جس کے چند جید تفتیش کاروں کو Whatsapp وغیرہ کے استعمال سے چنا گیا تھا، وزیر اعظم نواز شریف کو جمعرات کی صبح اپنے روبرو پیش ہونے کے لئے بلالیا ہے۔ خاص دستاویزات کی نشان دہی کئے بغیر حکم انہیں یہ بھی ملا ہے کہ اپنے خاندان کی جائیداد کو حق حلال ذرائع کے ذریعے خریدنے کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے چند فائلیں وغیرہ بھی اپنے ہمراہ لائیں۔
ہمیں خبر نہیں کہ جمعرات کے روز جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت تک پہنچ جانے کے بعد اس ملک کے ”چیف ایگزیکٹو“ ہونے کے دعوے دار کو کتنی دیر تک کس کمرے میں تنہابیٹھ کر اپنے بلاوے کا انتظار کرنا ہوگا۔ دعوے چاہے جو بھی ہوں میں جبلی طورپر یہ محسوس کررہا ہوں کہ ملزموں کی طرح اپنی پیشی کا انتظار کرتے نوازشریف کے اکیلے میں بیٹھے ہوئے لمحات، خفیہ کیمروں کی مدد سے ہر صورت ریکارڈ کیے جائیں گے۔ کسی نہ کسی موقع پر اس ریکارڈنگ کا منظرِ عام پر لانا بھی ضروری سمجھا جائے گا تاکہ پاکستان کے مجبور وبے بس لوگوں کو یقین آجائے کہ ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ والا دن طلوع ہوگیا ہے۔ قانون، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طاقت ور اور کمزور کے لئے برابر ہوگیا ہے۔
طاقت وروں کی قانون کے سامنے ”برابری“ 4 اپریل 1979 کے روز مبارک بھی ہوتی نظر آئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ کے حکم سے پھانسی دی گئی تھی۔ جنرل ضیاءکے دستِ راست جنرل عارف کی کتاب پڑھیں تو آپ کو علم ہوجائے گا کہ پھانسی کی صبح والی رات کال کوٹھڑی میں تنہا بیٹھے بھٹو کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہوا تھا۔ اسے جنرل ضیاءاور ان کے رفقاءنے بعدازاں اطمینان سے بیٹھ کر دیکھا بھی تھا۔ وہ یہ ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد اس بات پر بہت حیران ہوئے کہ پھانسی کی رات کال کوٹھڑی میں بیٹھا بھٹو بہت ”مضطرب“ دکھائی دے رہا تھا۔ غالباََ ”گھبرا“ گیا تھا۔ بھٹو کی مبینہ گھبراہٹ درحقیقت اضطراب تھی۔ جنرل ضیاءاور ان کے رفقانے اسے مگر بھٹو کے ”بکری“ ہوجانے کی صورت دیکھا۔ جنرل عارف کی تحریر پڑھیں تو اس کے بین السطور میں بھٹو کی ریکارڈنگ پر ہوا تبصرہ اس لذت کی نشاندہی کرتا ہے جسے انگریزی زبان میں Sadistic Pleasure کہا جاتا ہے۔
تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوجانے کے بجائے میں فوراََ اس سوال کی جانب آتا ہوں جس کا جواب میں اتوار کی پوری رات اپنے بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے بھی تلاش نہیں کرپایا ہوں۔
حقائق خواہ کچھ بھی ہوں نواز شریف پر، ہمارے تحریری آئین کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے، ”چیف ایگزیکٹو“ ہونے کا الزام بھی ہے۔ آئین کی لگائی اس ”تہمت“ کی بدولت اس ملک کے تمام ادارے موصوف کے روبرو جوابدہ ہیں۔ ایک منتخب حکومت کا آئینی سربراہ کہلاتا 2017 کا بہادر شاہ ظفر کاغذات کا پلندہ لئے گریڈ 18 سے 20 تک کے افسروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو آنکھیں نیچی کئے ملزموں کی طرح سوالات کا جواب دے رہا ہوگا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ نواز شریف کی یہ پیشی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کی تحقیر ہے یا نہیں۔
مسئلہ نواز شریف کی ذات کا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے لوگوں کی کافی مو¿ثر کن تعداد اس پنجابی محاورے کو استعمال کرتے ہوئے جس میں گاجروں کا استعمال پیٹ میں درد کا باعث بنتا ہے، وزیر اعظم کی JIT کے سامنے پیشی کو اہمیت ہی نہ دیں۔ موصوف کے چاہنے والے بھی اپنی خفت اس دعوے کے ساتھ مٹانے کی کوشش کریں گے کہ چونکہ نواز شریف کا دامن صاف ہے، اس لئے موصوف نے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی درمیانی سطح کے سرکاری افسروں کے روبرو پیش ہونے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ احتساب کے عمل کو بلکہ اس پیشی کے ذریعے قابلِ اعتبار بنایا۔ اس دلیل کو بلوتے ہوئے ہمیں اسلامی تاریخ سے کچھ ایسے قصے بھی یاد دلائے جاسکتے ہیں جہاں ”امیر المومنین“ قاضیوں کے روبرو پیش ہوا کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی والے اپنے تئیں بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کی پیشیوں کا تذکرہ بھی کریں گے۔ بھٹو اور گیلانی مگر اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے روبرو کھلی سماعت کے لئے پیش ہوئے تھے۔ کھلی عدالت میں پیشی کا تقابل اس پیشی سے کیا ہی نہیں جاسکتا جہاں پاکستان کا تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم ملزموں کی تفتیش کے لئے مخصوص ہوئے ایک کمرے میں اکیلا بیٹھا اپنا دفاع کررہا ہوگا۔
یہ پیشی میری ذاتی رائے میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب کی تحقیر ہے۔ نواز شریف محض ایک فرد ہیں۔ اس ملک میں جمہوریت-جمہوریت کا فراڈ اگر جاری رہنے دیا گیا تو آنے والے کئی برسوں تک کچھ اور لوگ بھی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوں گے۔ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہتے ہوئے نواز شریف JIT کے روبروپیش ہوئے تو ایک نظیر بن جائے گی۔ ان کے بعد آنے والے وزیر اعظم بھی ایسی پیشیوں سے کسی صورت بچ نہیں پائیں گے۔ وزیر اعظم کے عہدے کی توقیر کو برقرار رکھنے کی خاطر میرا برجستہ اور دیانت دارانہ خیال یہی ہے کہ جمعرات کے روز JIT کے لئے روانہ ہونے سے پہلے نواز شریف کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر وزیر اعظم ہاﺅس خالی کردینا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ محض ایک عام شہری کے طورپر JIT کے سامنے پیش ہوں۔
سیاست دان مگر میری طرح سادہ لوح نہیں ہوتے۔ پانی کے چند ٹھنڈے گلاس پی کر لہذا میں وہ وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا جن کی بدولت نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے بھی روایتی ملزموں کی طرح گریڈ 18 سے گریڈ 20 کے افسروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے روبروپیش ہونے کو تیار ہوئے ہیں۔
ٹامک ٹوئیاں مارتے میرے ذہن میں کئی وجوہات نمودار ہوئیں۔ ان میں سے مگر کوئی ایک بھی میرے ضرورت سے زیادہ منطقی ذہن کو مطمئن نہ کرپائی۔ ایک بات مگر یاد آگئی کہ نواز شریف سجاد علی شاہ کی عدالت میں بھی پیش ہوئے تھے۔ اس کے بعد مگر سجادعلی شاہ بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں رہے تھے۔ وہ رخصت ہوئے تو صدر فاروق لغاری بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔ نواز شریف کی ”بلّے بلّے“ ہوگئی۔ اس بلّے بلّے کی حرارت میں ایک روز آرمی چیف جنرل کرامت کا استعفیٰ بھی ہوگیا۔ اس کے بعد آئے جنرل مشرف اور ان کی کمان سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد کارگل ہوگیا جس کا حتمی انجام 12 اکتوبر1999 کی رات دیکھنے کو ملا۔
شاید اس بار بھی نواز شریف نے ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ والا ماحول بنانے کے لئے وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے گریڈ 18 سے گریڈ 20 تک کے سرکاری افسروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور شاید ”تنگ آمد بجنگ آمد“ والا یہ رویہ درست ہی ہو۔ 2008 سے جمہوریت-جمہوریت کا فراڈ چلاتے ہمیں ویسے بھی کافی برس گزرگئے ہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ”جس کاکام اسی کو ساجھے“ والی حقیقت کی طرف پلٹاجائے۔