1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ’’سپیڈ‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کا امتزاج

’’سپیڈ‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کا امتزاج

عمران خان کے چند معصوم اور نیک دل چاہنے والے ان دنوں بہت پریشان ہیں۔ انہیں وہ تصویر ہرگز پسند نہیں آئی جس میں لوگوں کو عموماً ’’اپنی تھاںپر‘‘ رکھنے والے ’’کپتان‘‘ پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں آنے والی ڈاکٹر عاشق اعوان کا سواگت انہیں چادر پہناکرکررہے تھے۔ بادشاہوں کی عطا کردہ خلعت جیسی یہ چادرپہننے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ ’’دخترِ سیالکوٹ‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہوچکی ہیں۔ امید اب یہ باندھی جارہی ہے کہ اس دبنگ دختر کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد 1990ء کی دہائی سے سینٹ میں آنے کے بعد مختلف قومی اسمبلیوں کے لئے مسلسل منتخب ہونے والے خواجہ آصف کی سیالکوٹ سے آئندہ انتخابات میں کامیابی ناممکن ہوجائے گی۔ عثمان ڈار نے یہ کوشش 2013ء میں بھی کی تھی۔ وہ ناکام رہے۔ اب ڈار اور اعوان مل گئے ہیں تو کسی ’’تیسرے‘‘ کے امکانات ماند پڑگئے ہیں۔

’’دخترِ سیالکوٹ‘‘ کی تحریک انصاف میں شمولیت پر شاداں افراد کو اگرچہ یہ خبر نہیں کہ ضلع سیالکوٹ میں ایک ’’گجر‘‘ برادری بھی ہوتی ہے۔ چودھری انور عزیز کئی برسوں تک اس برادری کے اصل کنگ میکررہے تھے۔ 1985ء کے انتخابات میں چودھری امیر حسین اور چودھری اختر وریوکی دریافت کا سہرا ان ہی کے سربندھا تھا۔ بعدازاں سیالکوٹ کی طرح ناروال بھی ایک ضلع بن گیا۔ شکر گڑھ اس کی تحصیل ہوا۔ سیالکوٹ کے حصہ میں آئے علاقوں کے گجر، چودھری امیر حسین اور وریو خاندان سے سیاسی قوت حاصل کرنا شروع ہوگئے۔

سیالکوٹ ہی کے ویسے ایک اور قدآور ’’فرزند‘‘ بھی ہیں۔ رحمن ملک ان کا نام ہے۔ پیپلز پارٹی کے ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ چیئرمین کو ’’انکل رحمن‘‘ رموز مملکت کی گہرائیاں اور پیچیدگیاں سمجھانے کے لئے اکثر ان سے اکیلے میں ملاقات کرتے ہوئے دکھائی دئیے جاتے ہیں۔ ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے چند افراد کو بھی پیپلز پارٹی کی ’’اہمیت‘‘ کا اندازہ رحمن ملک کے ساتھ ملاقاتوں کی بدولت ہی حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے سیالکوٹ کے لئے آئندہ انتخابات کے دوران کیا حکمتِ عملی بنارکھی ہے اس کا علم ہمیں ہرگز نہیں۔ شائد کوئی Big Surprise دینے کی تیاری کررکھی ہو۔

اس کالم میں لیکن مجھے سیالکوٹ کے ممکنہ انتخابی سین پر غور نہیں کرنا۔ میرا اصل مقصد عمران خان کے چند معصوم اور نیک دل چاہنے والوں کو صرف یہ سمجھانے کی کوشش کرنا ہے کہ اپنے کپتان کی ’’مجبوریاں‘‘ دل بڑا کرکے تسلیم کریں۔ ان سے خفانہ ہوں۔ ’’دخترِ سیالکوٹ‘‘ جیسے افراد کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد بلکہ یہ سوچ کر مطمئن ہوجائیں کہ خان صاحب کی وزارتِ عظمیٰ تقریباََ ’’پکی‘‘ ہورہی ہے۔

ہمارے ہاں اقتدار کے کھیل کی بنیادی Dynamics کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ یاد رکھا جائے کہ کوئی سیاست دان عوام کے براہِ راست ووٹوں سے وزیر اعظم منتخب نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی کی 344 نشستیں ہیں۔ ان میں سے 272 کے لئے براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریتی نشستیں جیتنے والی جماعت ہی اپنے سربراہ یا سربراہ کے کسی نامزد کردہ کو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کا حق رکھتی ہے۔ 272 نشستوں پر اکثریت حاصل کرنے والی مجبوری ہی نام نہاد Electables کو اہمیت عطاء کرتی ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ موقعہ صرف ایک مرتبہ ملتا ہے کہ وہ کسی حلقے میں ’’کھمبا‘‘ بھی کھڑا کردے تو وہ جیت جاتا ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ 1977ء کے انتخابات تک پہنچتے ہوئے مگر یہی جماعت Electables سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔

تحریک انصاف کو ’’کھمبا‘‘ والا موقعہ 2013ء میں مل چکا ہے۔ آئندہ انتخابا ت میں یہ موقعہ اسے دوبارہ نصیب نہیں ہوگا۔ وجہ اس کی بنیادی یہ ہے کہ 2013ء میں عمران ایک ’’نیا چہرہ‘‘ تھا۔ وہ ہر سیاسی معاملے میں ’’ذراہٹ کے‘‘ دکھائی دیتا تھا۔ 2013ء کے بعد سے مگر وہ فارسی محاورے والی ’’کانِ نمک‘‘ میں جاکر ’’نمک‘‘ہوچکا ہے۔ ہر صورت اقتدار حاصل کرنے کے جنون میں اس نے ہر وہ ہتھکنڈہ اختیار کیا جو روایتی سیاست دان اپنایا کرتے ہیں۔

90ء کی دہائی میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کی حکومتوں کو پانچ سال والی آئینی مدت پورا کرنے نہیں دی تھی۔ قبل از وقت انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے انہوں نے غیر سیاسی قوتوں سے گٹھ جوڑ بھی کیا۔ ان کی سفاکانہ ضد بالآخر جنرل مشرف کے دس سالوں میں منتج ہوئی تو دونوں کو سب کچھ لٹاکر کچھ ہوش آگیا اور میثاقِ جمہوریت وغیرہ ہوا۔

2013 کے بعد سے عمران خان نے 1990ء کی دہائی والے محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے آزمائے تمام ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ اسلام آباد میں اگست 2014ء میں 126 دن تک دھرنا دے کر ’’ایمپائر‘‘ کی اُنگلی کا انتظار کیا۔ وہ ’’انگلی‘‘ نہ اٹھی تو 2016 میں پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد سے سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کے ’’احتساب‘‘ پر مجبور کیا۔

نواز شریف اگرچہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں مگر سپریم کورٹ کے دو ججوں نے انہیں ’’گاڈ فادر‘‘ کہہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی بنائی JIT اب صرف یہ دیکھ رہی ہے کہ ’’گاڈ فادر‘‘ کا ’’طریقہ واردات‘‘ کیا ہے۔ شاید وہ طریقہ دریافت ہوہی جائے۔ اس کی دریافت کے بعد قبل از وقت انتخابات ضروری ہوجائیں گے۔

ان انتخابا ت میں عمران خان کو لیکن واک اوورہرگز نہیں ملے گا۔ شہباز شریف اور ان کی Speed پاکستان کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے -پنجاب- میں اپنی جگہ موجود رہے گی۔ نواز شریف کے چاہنے والوں کو Whatsapp پر متحرک لوگوں کی بدولت‘‘ شہادت‘‘ کا رُتبہ بھی مل جائے گا۔ نئے انتخابات میں تحریک انصاف کے لئے کافی مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ عمران خان کو ان مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لئے غلام مصطفیٰ کھر جیسے تجربہ کار ’’خلیفوں‘‘ اور ’’دخترِ سیالکوٹ‘‘ جیسی دبنگ شخصیتوں کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ جنہیں اپنے حلقوں میں برادریوں کی سمجھ ہو۔ جنہیں علم ہوکہ انتظامیہ کسی امیدوار کو جتوانے کے لئے پولنگ کے دن اور انتخابی عمل کے دوران کونسے ’’خاص‘‘ ہاتھ دکھاتی ہے۔

ایک حقیقت پر ہمارے سیاسی مبصرین نے کبھی غور ہی نہیں کیا اور وہ یہ ہے کہ ہمارا آئین کسی صورت اس بات کو یقینی نہیں بناتا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں۔ نواز شریف JIT کی مشقت بھری تحقیق کی بدولت گاڈ فادر ثابت ہوگئے تو کیا ضمانت ہے کہ قبل از وقت انتخابات صرف قومی اسمبلی کے لئے نہیں ہوں گے۔ ایسی صورت میں موجودہ صوبائی اسمبلیاں اور ان کے ذریعے بنی حکومتیں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت برقرار رکھنے کا حق رکھتی ہیں۔ اس حق سے انہیں سوائے مارشل لاء جیسے غیر معمولی اقدام کے محروم کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بات کے امکانات لہذا کافی روشن ہیں کہ نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کے بعد صرف قومی اسمبلی کے لئے قبل از وقت انتخابات ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے شہباز شریف اپنی ’’سپیڈ‘‘ کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں کے لئے کافی پریشانیاں کھڑی کرسکتے ہیں۔ صرف Electables ان پریشانیوں کے تدارک کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انتخابی سیاست میں نوزائیدہ نیک دل لوگ ہماری تاریخ کے ایک قطعی نئے ’’انتخاب‘‘ کی Dynamics کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔

عمران خان صاحب کے معصوم اور نیک دل چاہنے والوں سے لہذا میری فریاد ہے کہ وہ ڈاکٹر اعوان جیسے افراد کو چادر پہناکر ’’دخترِ سیالکوٹ‘‘ بنانے والے واقعات سے اپنا دل چھوٹا نہ کریں۔ اپنی قیادت کی فراست پر ایمان برقرار رکھیں۔