1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. اصغر خان کیس کی تدفین کے انتظامات

اصغر خان کیس کی تدفین کے انتظامات

قانونی امور کو سمجھتا ہوں اور نہ عدالت جانے کی فرصت میسر ہوتی ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ آف پاکستان یا کسی اور عدالت کی کارروائی دیکھنے کا بہت کم موقع ملتاہے۔ پوری صحافتی زندگی میں چھ سات مرتبہ ہی ایسا کیا ہوگا۔ تاہم گزشتہ پیر چار اہم ترین کیسوں (اصغر خان کیس، جعلی اکاونٹس کیس، زلزلہ متاثر ین کیس اور حسین حقانی کیس) کی ایک ساتھ کورٹ روم نمبرون میں سماعت ہونا تھی، اس لئے عدالت عظمیٰ جاپہنچا۔ سول ملٹری تعلقات چونکہ میری دلچسپی کا خاص موضوع ہیں اس لئے مجھے زیادہ دلچسپی اصغر خان کیس اور حسین حقانی کیسز میں تھی۔ اس روز چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب حسب روایت پوری فارم میں تھے، ڈیڑھ سو سے زائد افراد اور بالخصوص وزیراعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر شدید برہم نظر آئے۔ ایف آئی اے کے جس افسر کی سربراہی میں جعلی اکاونٹس کیس سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ تیار ہوئی، وہ وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے ہمراہ سرجھکائے روسٹرم پر کھڑے تھے۔ چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔ ابھی اسے عدالت کو دیکھنا اور جانچنا ہے۔ پھر کیوں اس کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے؟ وزیرداخلہ اور اٹارنی جنرل نے ملبہ جے آئی ٹی کے سربراہ پر ڈال دیا حالانکہ جے آئی ٹی کےسربراہ اس ایف آئی اے کے افسر ہیں جس کے باس وزیر داخلہ یعنی خود وزیراعظم ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا یہ بھی موقف تھا کہ جے آئی ٹی کا کام صرف رپورٹ تیار کرنا تھا، اس کے بعد عمل درآمد کے حوالے سے اس کا کوئی مینڈیٹ نہیں تو پھر اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیوں کیا گیا؟ لیکن چونکہ معاملہ پیپلزپارٹی اور سیاستدانوں سے متعلق تھا اس لئے عمران احمد خان نیازی صاحب کی ایف آئی اے اتنی تیز اور طاقتور ثابت ہوئی کہ نہ صرف مختصر وقت میں رپورٹ تیار کی گئی بلکہ اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے اب 172 افراد جن میں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین تو کیا ایک منتخب وزیراعلیٰ بھی شامل ہیں، کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش بھی کردی۔ دوسری طرف عمران خان کی حکومت اتنی بہادرثابت ہوئی کہ ایک ہی دن میں کابینہ کا اجلاس بلا کر اپنے ایف آئی اے کی سفارش کی منظوری بھی دے دی لیکن جب معاملہ اصغر خان کیس کا آیا تو یہی ایف آئی اے نکمی بھی بن گئی، نااہل اور بزدل بھی۔ اصغر خان کیس کی باری آئی تو وزیراعظم کے ماتحت ادارے ایف آئی اے نے رائے دی کہ اسے جنرل (ر)اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی کی طرف سے میاں نوازشریف اور آئی جے آئی کے دیگر رہنمائوں کو رقوم دیئے جانے کے شواہد نہ مل سکے اس لئے اس کیس کو بند کردیا جائے۔ دلیل یہ پیش کی گئی کہ چونکہ کیس پچیس سال پرانا ہے اس لئے ریکارڈ دستیاب نہیں۔ حالانکہ یہ وہی ادارے ہیں جو میاں نوازشریف کے خلاف پاناما کیس میں پچاس سالہ پرانا ریکارڈ تلاش کرچکے ہیں اور اب اسی نوازشریف کے خلاف ایک اور پینتیس سالہ پرانے کیس کی تحقیقات کررہے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کو ہروانے کے لئے آئی جے آئی کی تشکیل اور اس کے رہنمائوں میں فنڈز کی تقسیم کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے خود آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کا بیان حلفی موجود ہے۔ جنرل(ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر)حمید گل کے اعترافات ریکارڈ پر ہیں سوائے جنرل (ر) حمیدگل کے الحمد للہ باقی سب کردار زندہ بھی ہیں۔ اس معاملے پر ہزاروں آرٹیکلز اور درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ لیکن چونکہ معاملے میں سیاستدانوں کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی فریق ہیں، اس لئے عمران خان صاحب کی ایف آئی اے کوئی تحقیق نہیں کرسکی اور کیس کو بند کرنے کی سفارش کی۔ جو سفارش وہ ایف آئی اے رحمان ملک اور چوہدری نثار علی خان کے دور میں نہ کرسکی، اب نیازی صاحب کے دور میں کررہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایئرمارشل ریٹائرڈاصغر خان صاحب اس کیس کی پیروی کرتے کرتے اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ جب چیف جسٹس صاحب نے استفسار کیا کہ کیس کا مدعی کون ہے تو احاطہ عدالت میں کوئی موجود نہیں تھا۔ اصغر خان مرحوم کے سیاسی جانشین اب ان کے بیٹے علی اصغر خان صاحب ہیں۔ وہ اس وقت تحریک انصاف کے رہنما ہیں اور چونکہ وہ بھی تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں اس لئے انہوں نے بھی اپنے والد مرحوم کی اس امانت کی پیروی کی زحمت نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے والد کی رحلت کے بعدان کی جگہ مدعی بنتے لیکن شاید اپنی قیادت یا کسی اور کے خوف سے وہ بھی اس دن عدالت میں موجود نہیں تھے۔ تاہم عدالت نے پھر بھی کیس ختم کرنے کی بجائے اصغر خان مرحوم کے خاندان کو ایک موقع دیا کہ اگر ان میں کوئی اس کیس کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو اگلی پیشی پر آجائے۔ ہوسکتا ہے ان کے خاندان کا کوئی اورفرد اگلی پیشی پر پیروی کے لئے آجائے لیکن علی اصغرخان صاحب کا مدعی بننا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ جس عمران خان صاحب نے ایف آئی اے کو پسپائی پر مجبور کر دیا وہ علی اصغر خان صاحب کوبھی کیس کی پیروی کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگرچہ آئی جے آئی کیس میں لینے والے میاں نوازشریف اور ان کے ساتھی بتائے جاتے ہیں لیکن چونکہ دینے والے ایسے لوگ ہیں جن کا احتساب نہیں ہوسکتا، اس لئے نہ ایف آئی اے جرات کرسکتی ہے اور نہ وزیراعظم صاحب ہمت کرسکتے ہیں۔ ہاں البتہ معاملہ صرف نوازشریف کا ہوتا تو کب تک شواہد کے ساتھ سب کچھ عدالت میں پیش ہوچکا ہوتا۔ اس معاملے میں نوازشریف کی یہ خوش قسمتی ہے کہ شریک ملزم جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی جیسے لوگ ہیں، اس لئے وہ بھی بری الذمہ قرار پائیں گے ورنہ تو اس معاملے میں بھی کب کی ان کو سزا ہوچکی ہوتی۔ یہ صورت حال دیکھ کر اب حسین نوازشریف ضرور پچھتائیں گے کہ پاناما کیس کے آغا ز کے وقت انہوں نے میرے مشورے پر عمل کیوں نہیں کیا۔ ہوا یوں کہ پاناماکیس کے لئے جے آئی ٹی بنی تو ایک روز حسین نوازشریف سے ملاقات ہوئی۔ وہ وزیراعظم ہائوس کے اندر بڑی بڑی فائلوں میں گھرے بیٹھے کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے والد اور بہن کے ساتھ تو میرا پچھلے تین سال سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں لیکن میرے پاس ایسا نسخہ موجود ہے کہ اس پر عمل کرنے سے آپ کا پورا خاندان بچ سکتا ہے۔ یہ سن کر حسین نواز صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ بتائیں نہ سلیم بھائی۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ کے والد صاحب پاناما سے متعلق پہلے روز سے یہ موقف اپنالیں کہ آئی جے آئی بنانے کے لئے ہمیں جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر جو پیسہ دیا گیا تھا، اس میں سے کچھ بچ گیا تھا تو اس سے ہی ہم نے لندن کی جائیداد خریدی اور پاناما کے اکاونٹس کھولے تو یہ معاملہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ نہ تحقیقات ہوں گی اور نہ عمران خان وغیرہ پیچھے پڑے رہیں گے۔ میری یہ تجویز سن کر حسین نواز کا موڈ خراب ہوگیا۔ ان کے موڈ سے ظاہر ہونے لگا کہ میں اس مشکل وقت میں ان کا مذاق اڑا رہا ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ آج اصغر خان کیس کا یہ انجام دیکھ کر انہیں اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اگر اس وقت وہ میری اس تجویز کو والد تک پہنچاتے اور وہ اس پر عمل کرتے تو آج ان کے والد نوازشریف جیل میں ہوتے اور نہ خود حسین نواز لندن میں بیٹھے ہوتے۔ اس صورت میں نہ ایجنسیاں کھوج لگانے کی زحمت کرتیں اور نہ ایف آئی اے وغیرہ پھرتیاں دکھاتیں۔ بہ ہر حال نوازشریف کو مبارک ہو کہ اصغر خان کیس میں دینے والے کچھ اور لوگ تھے، ورنہ اس میں بھی لینے والے کے خلاف کب سے ایسے شواہد عدالتوں میں پیش ہوچکے ہوتے کہ ان کو سخت سے سخت سزا دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ جب دینے والوں کو سزا نہیں ملنی تو پھر لینے والے بھی لامحالہ بچے رہیں گے۔ کاش وہ ایون فیلڈاور العزیزیہ وغیرہ میں بھی اپنے ساتھ کسی اسلم بیگ یا اسد درانی کو پارٹنر بناتے تو شاید اب تک وزیراعظم ہوتے۔