سی پیک کو سمجھنے کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے جبکہ بیلٹ اینڈ روڈ کو سمجھنے کے لئے چین کو سمجھنا ضروری ہے ۔ چین مستقبل قریب میں امریکہ کا ہم پلہ اقتصادی قوت بننے جارہا ہے ۔ اس کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ہتھیار ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ معیشت اور تجارت ہیں ۔ چین کے موجودہ صدر نے یہ منصوبہ بنایا کہ اپنی برآمدات کو بیرونی دنیا تک پہنچانے اور تجارت بڑھانے کے لئے پرانے سلک روٹ کی طرز پر اقتصادی راہداریوں کا ایک جال بچھایا جائے۔ تصور سلک روڈ سے لیا گیا لیکن یہ اس کے بنسبت بہت وسیع ہے اور اس میں بحری راہداریاں بھی شامل ہیں ۔ چنانچہ اس تصور کے تحت ۲۰۱۳ء سے سات اکنامک کاریڈورز پر کام کا آغا ز کردیا گیا ۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے ،جس کا ابتدائی نام ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ تھا، کے تحت چینی سات اکنامک کاریڈورز بنارہے ہیں جن میں ایک چین پاکستان اکنامک کاریڈور بھی ہے ۔ پہلا کاریڈور نیوایروایشین لینڈ برج ہے جو مغربی چین سے روس تک جاتا ہے ۔ دوسرا چائنا منگولیا رشیا کاریڈور ہے جو منگولیا کے راستے مشرقی روس تک جاتا ہے ۔ تیسرا چائنا سنٹرل ایشیا کاریڈورہے جو سنٹرل ایشیا کے راستے ترکی تک جاتا ہے۔ چوتھا انڈوچائنا پننسلویلا کاریڈور جو جنوبی چائنا سے انڈونیشیاکے راستے سنگاپور تک جاتا ہے ۔ پانچواں چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور ہے جو مغربی چائنا سے گوادر تک جاتا ہے ۔ چھٹا بنگلہ دیش چائنا انڈیا میانمار کاریڈور ہے جو جنوبی چائنا سے انڈیا اور بنگلہ دیشن کے راستے برما تک جاتا ہے جبکہ ساتواں میری ٹائم سلک روٹ ہے جو ساحلی چین کو سنگاپور اور ملائیشیاکے راستے بحرہند اور بحیرہ عرب کو ملاتا ہے ۔ ابھی تک چینی اس منصوبے کے تحت نو سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکے ہیں جن میں سے صرف ساٹھ ارب ڈالر سی پیک کے لئے مختص ہیں۔ اس منصوبے میں صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے ستر سے زائد ممالک شامل ہیں ۔ چینی چونکہ زبان بند رکھ کر خاموشی کے ساتھ کام کرنے کے قائل ہیں اس لئے نہ تو چین میں اس منصوبے کی بنیاد پر کوئی سیاست ہورہی ہے اور نہ دنیا کے باقی ممالک جو مختلف کاریڈورز میں شامل ہیں، کے اندر ان کا غلغلہ ہے تاہم پاکستان میں پہلا ظلم مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ڈھایاکہ اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ اٹھتے بیٹھتے وزیراعظم اور وزرا سی پیک، سی پیک کا ورد کرنے لگے ۔ اپنے ساتھ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور نہ صوبوں کو ۔ میں چیختا چلاتا رہا کہ سودوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں لائی جائیں اور جے سی سی میں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی نمائندگی دی جائے لیکن مسلم لیگی حکومت جہاں زیادہ ڈھنڈورا پیٹتی رہی وہاں ہر معاملے میں اخفا اور پراسراریت سے کام لیتی رہی ۔ ایک طرف انفراسٹرکچر سے زیادہ وسائل توانائی اور وہ بھی ہائیڈل نہیں بلکہ مہنگی بجلی کے منصوبوں کی طرف موڑ دئیے اور دوسری طرف بنیادی مغربی روٹ کی بجائے مشرقی روٹ کو کاریڈور کا بنیادی روٹ بنا دیا گیا۔ اس وقت حکومت کے ساتھ یہ جنگ مجھ جیسے طالب علم یا پھر سید عالم محسود جیسے لوگ لڑتے رہے ۔ اختر مینگل صاحب نے آواز بلند کئے رکھی۔ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں نے بھی کسی حد تک کوششیں کیں لیکن پی ٹی آئی کی قیادت دھرنوں میں الجھی رہی ۔ چنانچہ مسلم لیگی حکومت نے اس منصوبے کا جو حشر کرنا تھا ، کرڈالا ۔ اب باری پی ٹی آئی کی آگئی ہے اور رہی سہی کسر وہ پوری کررہی ہے ۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ سی پیک چین اور پاکستان کا دوطرفہ منصوبہ ہے اور جس طرح چین اپنی شرائط منوا یا بدلوا سکتا ہے ، اسی طرح یہ حق پاکستان کو بھی حاصل ہے لیکن چینی اپنی عادت کے مطابق یہ کام خاموشی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی طرح چین سی پیک میں خطے کے کسی اور ملک (امریکہ خطے کا ملک نہیں ) کی شمولیت کے بارے میں بھی حساس نہیں بلکہ اس کی اپنی خواہش رہی ہے کہ پاکستان اس میں افغانستان، ایران اور دیگر ممالک کو شامل کرادے ۔ 2016میں خود احسن اقبال ایران اور سعودی عرب کو اس میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں ۔ لیکن سی پیک کا ایک پہلو اسٹرٹیجک جبکہ دوسرا اقتصادی ہے اور چین صرف اقتصادی پہلو میں دوسروں کی شرکت پر معترض نہیں ۔ اسٹرٹیجک پہلو میں کسی تیسرے ملک اور بالخصوص کسی ایسے ملک جو امریکہ کے زیراثر ہو، کے بارے میں چین کو ضرور تشویش ہوگی ۔ اب پی ٹی آئی کی قیادت نے اقتدار میں آتے ہی سی پیک کو اسی طرح انتقام کا نشانہ بنانا شروع کیا جیسے کہ یہ میاں نوازشریف اور احسن اقبال کا ذاتی منصوبہ ہو ۔ پہلے کابینہ کی سطح پر سی پیک کے منصوبوں کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کرکے اس کی میڈیا میں تشہیر کی گئی ۔ پھر چینی وزیرخارجہ کا استقبال ایک معمولی سرکاری افسر سے کروایا گیا۔ اس کے بعد وفاقی وزیرتجارت عبدالرزاق دائود نے سی پیک کے منصوبے کا ٹھیکہ اپنی کمپنی کو نہ ملنے کا غصہ مغربی میڈیا میں یہ بیان جاری کرکے اتار دیا کہ سی پیک پر ایک سال کے لئے کام روکا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ جو نقصان پہنچایا گیا اس کی تلافی کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو چین جانا اور وہاں قیادت کو مطمئن کرنا پڑ ا ۔ ابتدا میں طے پایا تھا کہ آرمی چیف بھی وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب جائیں گے لیکن چونکہ انہیں چین کی طرف پھیلائی گئی حکومتی گند کو صاف کرنا پڑ گیا ، اس لئے جب وزیراعظم سعودی عرب جارہے تھے تو جنرل صاحب چین میں وہاں کی اعلیٰ قیادت کو سی پیک کے مستقبل کے حوالے سے مطمئن کررہے تھے ۔ تاہم سعودی عرب سے واپسی پر تبدیلی سرکار نے سی پیک کے حوالے سے ایک اور تنازع کھڑا کردیا ۔ ابھی واپس لوٹے بھی نہیں تھے کہ وفاقی حکومت کے ترجمان فواد چوہدری نے فاتحانہ اور عالمانہ انداز میں اعلان کرڈالا کہ سعودی عرب اربوں ڈالر لگا کر سی پیک کا تیسرا اسٹرٹیجک پارٹنر بننے پر تیار ہوگیا ہے لیکن عملی منصوبہ صرف گوادر میں آئل ریفائنری کا سامنے آیا۔یہ فواد چوہدری کے اپنے ذہن کی اختراع نہیں تھی بلکہ اس حوالے سے وہ واپسی پر جہاز میں باقاعدہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سے مشورہ کرچکے تھے کہ میڈیا میں کیا کہنا ہے۔ دوسری طرف بعض حکومتی ترجمانوں نے سعودی عرب کی طرف سے دس ارب ڈالر دینے کی نوید بھی سنا دی ۔چنانچہ اسٹرٹیجک پارٹنر کے لفظ اور دس ارب ڈالر کے انعام کے اعلان سے تشویش پیدا ہوئی ۔ کیونکہ چین سمیت سب حیران ہوگئے کہ دس ارب ڈالر اگر دئیے جارہے ہیں تو کس مد میں اور کس خدمت کے بدلے میں دئیے جائیں گے ۔ اسٹرٹیجک کے لفظ سے یوں پریشانی پیدا ہوئی کہ اگرچہ سعودی عرب ہمارا قریب ترین اور بااعتماد دوست ہے لیکن وہ امریکہ کاا سٹرٹیجک پارٹنر اور ایران کاا سٹرٹیجک حریف بھی تو ہے ۔چنانچہ معاملہ اگر صرف اقتصادی شرکت تک رہے تو چین ا ور ایران سمیت کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ پیشکش ایران اور افغانستان کے لئے بھی ہے لیکن اسٹرٹیجک شراکت سے ہر کسی کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہاں پر بھی جب عسکری قیادت نے کان کھینچ لئے تو فواد چوہدری کو سی پیک کے انچارج وزیر خسروبختیار کے ساتھ پریس کانفرنس میں بٹھا کر یہ وضاحت کروائی گئی کہ سعودی عرب سی پیک میں اسٹرٹیجک پارٹنر نہیں بن رہا بلکہ صرف آئل ریفائنری جیسے اقتصادی منصوبوں کی بات ہوئی ہے ۔ لگتا ہے کہ اگلے چند سال اسی میں گزریں گے کہ حکومت گند کرتی اور عسکری قیادت صاف کرتی رہے گی ۔ دوسری طرف چینی حیران ہیں کہ کس قوم سے واسطہ پڑگیا ہے جبکہ سی پیک کا منصوبہ پریشان ہے کہ کس نادیدہ قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں پھنس گیا ہوں۔ کہتے ہیں کہ مراثی کے گھر بچے کی پیدائش ہوئی تھی تو چوم چوم کر اسے مار دیا گیا ۔ مسلم لیگی حکومت نے چوم چوم کر سی پیک کا برا حشر کردیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اب چوم چوم کر پی ٹی آئی والے اس کا گلا ہی نہ دبا یں ۔بے چارہ سی پیک۔