1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. ففتھ جنریشن وار

ففتھ جنریشن وار

جنگوں کے مورخین اور ماہرین نے تفہیم کی خاطر اب تک کی جنگوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ فرسٹ جنریشن وار، سیکنڈ جنریشن وار، تھرڈ جنریشن وار، فورتھ جنریشن وار اور ففتھ جنریشن وار۔ پانچ پیڑیوں میں تقسیم کے حوالے سے تو ماہرین متفق ہیں لیکن الگ الگ جنریشن کی تعریف پر اختلاف موجودہے۔ مثلاً کچھ ماہرین سیکنڈ جنریشن وار کو ایک دور سے شروع کرتے ہیں اور کچھ دوسرے دور سے۔ اسی طرح کچھ ماہرین اس وقت ففتھ جنریشن وار کے اقدامات کو بھی فورتھ جنریشن وار کا حصہ قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ اس کو ففتھ جنریشن کا نام دے رہے ہیں۔ تاہم مروجہ معنوں میں جب جنگیں دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے رہ کر تلواروں وغیرہ سے لڑا کرتے تھے تو ان کو فرسٹ جنریشن وارز (پہلی پیڑی کی جنگیں) کہا جاتا ہے۔ انگلش سول وار اور امریکہ کی جنگ آزادی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ پھر جب بندوق اور توپیں ایجاد ہوئیں اور اس کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگیں تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار (دوسری پیڑی کی جنگیں) کہا جاتا ہے۔ بندوق اور توپ کے ایجاد سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں۔ اس کے بعد جب جنگوں میں فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگئی یا میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کے راستے بھی نکل آئے اور ٹیکنالوجی کا استعمال فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگا تو ان جنگوں کو تھرڈ جنریشن وار ز کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم اور ویت نام یا کوریا کی جنگیں اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ تھرڈ جنریشن تک جنگیں صرف افواج کے درمیان لڑی جاتی تھیں لیکن گزشتہ صدی کے دوران ان میں ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور مقامی شورشوںکا عنصر شامل ہوگیا۔ مثلاً سرد جنگ کے دنوں میں سوویت یونین نے کئی ممالک میں یہ جنگیں اپنی فوجیں بھیجنے کی بجائے مقامی طاقتوں کے ذریعے لڑیں جبکہ دوسری طرف امریکہ نے افغانستان میں نان اسٹیٹ ایکٹر کی حیثیت رکھنے والے مجاہدین کو سپورٹ کرکے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی۔ اس وقت جنگوں میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ ساتھ سفارت کاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے اور ریاستی افواج کے ساتھ ساتھ پراکسیز کا کردار بھی اہم بن گیا۔ اسی طرح دہشت گردی بھی جنگوں کے اہم ہتھیارکی حیثیت اختیار کرگئی۔ جنگوں کی اس نئی قسم کو فورتھ جنریشن وارز کا نام دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہائیبرڈ وار (Hybrid Warfare) کی اصطلاح بھی اسی فورتھ جنریشن وار کا دوسرا نام ہے کیونکہ اس میں اسلحے کے ساتھ ساتھ جنگ کے دیگر کئی ہتھیار شامل ہوگئے۔ افغانستان، عراق اور شام وغیرہ کی جنگیں فورتھ جنریشن وارز کی نمایاں مثالیں ہیں۔ تاہم اب جنگوں کی ایک نئی قسم سامنے آگئی ہے جسے ففتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم فورتھ جنریشن وارز سے نکل کر ففتھ جنریشن وار ز کے زمانے میں آگئے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ابھی ہم فورتھ سے ففتھ کے انتقال (Transition) کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کو سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے انگریزی لفظ بیٹل (Battle) اور وار(War) کے فرق کو سمجھنا چاہئے بیٹل وہ ہوتا ہے جس میں دو فوجیں یا مسلح طاقتیں ایک دوسرے سے براہ راست لڑائی لڑتی ہیں جبکہ وار بہت مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس میں ہتھیاروں کے ساتھ پروپیگنڈے، سفارت کاری، معیشت اور دیگر ہر طرح کے حربوں کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اسی طرح موجودہ دور میں کسی ملک کی طاقت دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے۔ یعنی ہارڈ پاور (Hard Power) اور دوسرا سافٹ پاور (Soft Power)۔ ہارڈ پاور سے مراد کسی ملک کی فوج، جنگی ہتھیار اور جنگی ٹیکنالوجی وغیرہ ہے جبکہ سافٹ پاور سے مراد اس کی لابنگ، پروپیگنڈے، سفارتی اثرورسوخ، پراکسیز اور معیشت کی صلاحیتیں ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ یہ بیٹل (Battle) نہیں بلکہ وار (War) ہوتا ہے۔ اس میں بیٹل کی یا تو نوبت نہیں آتی یا پھر وار (War) جیت کر آخری وار کے طور پر بیٹل کا آپشن آزمایا جاتا ہے۔ اسی طرح ففتھ جنریشن وار میں دشمن اپنے ہارڈ پاور کی بجائے سافٹ پاورز کو بروئے کار لاتا ہے اور وہ زیرنشانہ ملک کے سافٹ پاورز ہی کو نشانہ بناتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ میڈیا، سفارت کاری، پراکسیز اور معیشت ہیں۔ یہ زمین پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے۔ پہلے مرحلے میں انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوجیں بھیجنے کی بجائے زیرنشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ براہ راست حملے کے بجائے پراکیسز کے ذریعے زیرنشانہ ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے اور اس ملک کے اپنے شہریوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کے ذریعے اپنے پراکیسز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں پہلے مرحلے پر زیرنشانہ ملک کی فوجی چھاونیوں اور تنصیبات کو نہیں بلکہ معاشرے میں موجود فالٹ لائنز کو تلاش کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعے اندرونی انتشار کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روایتی جنگیں صرف حکومتیں چھیڑتی تھیں لیکن ففتھ جنریشن وارز بعض اوقات نان اسٹیٹ ایکٹرز انفرادی طور پر بھی چھیڑ سکتے ہیں۔ اسی طرح روایتی جنگوں کے مختلف ایکٹرز کے درمیان کوآرڈینیشن ضروری ہوتی ہے لیکن ففتھ جنریشن وار میں ضروری نہیں کہ مختلف حملہ آوروں میں کوئی کوآرڈینیشن ہو بلکہ بعض اوقات مختلف کردار اپنے اپنے طریقے سے زیرنشانہ ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کا ہدف ایک ہوتا ہے۔ اس جنگ میں کسی ملک کے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے عناصر اور اداروں کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اس لئے ذرائع ابلاغ ( ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیااور فلم وغیرہ) اس جنگ کے خصوصی ہتھیار بھی سمجھے جاتے ہیں اور یہی پہلا نشانہ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں شاعر اور ادیب بھی ذہن سازی میں بنیادی کردار اد ا کرتے ہیں اور شاید ان سب سے اہم ترین مذہبی رہنما ہیں اور ہمارے ملک کو چلانے والوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان اس ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے اور اس کے تحت مذکورہ سب عناصر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ویسے تو جنگوں کو مختلف پیڑیوں میں تقسیم کرنے کا آغاز امریکی جنگی ماہرین نے کیا تھا لیکن مغرب میں یہ بحث بڑی حد تک آج بھی فورتھ جنریشن وار پر رکی ہوئی ہے۔ مغربی سیاست اور میڈیا میں ففتھ جنریشن وارز کی اصطلاح بہت کم سننے کو ملتی ہے۔ وہاں اگر یہ اصطلاح استعمال بھی ہورہی ہے تو بالکل الگ تناظر میں استعمال ہورہی ہے۔ مثلاً امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے جو اثر ڈالا، اسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا جارہا ہے۔ باقی دنیا میں یہ اصطلاح سب سے زیادہ مصر کے حکمران جنرل سیسی نے استعمال کی۔ جنرل سیسی اور ان کے ترجمانوں کا یہ دعویٰ رہا کہ ان کی حکومت کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ ففتھ جنریشن وار کے تحت ہورہا ہے جس کا بنیادی مقصد مصری فوج اور ریاست کو کمزور کرنا ہے۔ مصر کے بعد اب یہ اصطلاح بڑی شدت کے ساتھ پاکستان میں استعمال ہونے لگی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ چند ماہ بعد ہمیں ہر طرف اس اصطلاح کا ذکر اور غلغلہ نظر آئے گا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ان دنوں دشمن ممالک اور مختلف نان اسٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار چھیڑ دی ہے جس کے تحت ملک کے اندر مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ریاست اور بالخصوص فوج کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے۔ اسی طرح مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی فساد کو ہوا دی جارہی ہے۔ مختلف بنیادوں پر ذہنی انتشار اور تفریق کو ہوا دی جارہی ہے۔ اداروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ بے یقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستانی معیشت کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست، صحافت حتیٰ کہ عدالت کو بھی اس ففتھ جنریشن وار کے آئینے میں دیکھاجارہا ہے اوراسی کے تناظر میں ریاستی پالیسیاں تشکیل پارہی ہیں۔

مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اس حد تک ہم جیسے طالب علم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان اس وقت کسی حد تک ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ مقابلہ کیسے کیا جائے؟یا ہماری ریاست اس جنگ میں کس طرح جواب دے رہی ہے اور اسے کیا کرنا چاہئے؟، زندگی رہی اور میری تحریریں شائع ہوتی رہیں تو اگلے کالم میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔