تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے لیکن اسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں لیتا۔ جب میاں نوازشریف، بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال ہورہے تھے تو انہوں نے بھٹو کے انجام کو مدنظر نہیں رکھا۔ آخری بار اقتدار ملنے کے بعد جب انہوں نے آصف علی زرداری کو تنہا چھوڑ دیا تو یہ نہیں سوچا کہ 1999ء ایک اور شکل میں بھی دوبارہ آسکتا ہے۔ عمران خان جب نوازشریف کی دشمنی میں ان کے بچوں کا پیچھا کررہے تھے تو یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ان کی بہن علیمہ خان کی بیرون ملک جائیدادیں بھی اسی طرح موضوع بحث بن سکتی ہیں جس طرح میاں نوازشریف کے بچوں کی ہوگئی ہیں۔ جب وہ دوسروں پر ذاتی حملے کررہے تھے تو یہ نہیں سوچا کہ ایک دن ان کی ذاتی زندگی بھی موضوع بحث بن سکتی ہے۔ مکافات عمل دیکھ لیجئے کہ جو سلمان اکرم راجہ کل میاں نوازشریف کے بچوں کے وکیل تھے، آج علیمہ خان کی وکالت کے لئے بھی انہی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ لیکن سب سے دلچسپ معاملہ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2012 میں زرداری صاحب کے ایک دوست نے عمران خان کے لاہور اور پنڈی کے جلسوں کے لئے کروڑ سے زائد رقم فراہم کی تھی لیکن زرداری صاحب کے کہنے پر انہوں نے پی ٹی آئی کے پنڈی جلسے کے لئے مزید پچاس لاکھ فراہم کئے۔ ایک تو وہ ان قوتوں کو خوش کرنا چاہ رہے تھے جو عمران خان کے غبارے میں ہوا بھررہے تھے اور دوسرا ان کا خیال تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی آگے آئے گی تو وہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کاٹے گی لیکن انتخابات میں نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی نے پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کا نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کا جنازہ نکال دیا۔ پھر جب میاں نوازشریف پر اعتماد کرکے زرداری صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے دی تو انہوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ نتیجتاً زرداری صاحب کو ملک چھوڑنا پڑا اور پھر اس وقت تک واپس نہیں لوٹے جب تک اینٹ سے اینٹ جوڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پھر جب میاں نوازشریف پانامہ میں پھنس گئے تو زرداری صاحب لطف اٹھاکر تالی بجاتے رہے۔ سینیٹ انتخابات میں انہوں نے ایسا کردار ادا کیا کہ اس کی توقع عمران خان سے بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ عام انتخابات کے بعد وہ چاہتے تو ساتھ دے کر میاں نوازشریف کی مشکلات میں کمی لاسکتے اور اپنی مشکلات کا راستہ روک سکتے تھے لیکن وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ اربوں روپے لٹا کر انہوں نے اینٹ سے اینٹ جوڑکر جو تصوراتی عمارت تعمیر کی ہے، وہ ہمیشہ سلامت رہے گی لیکن ابھی عمران خان کے اقتدار کی عمارت پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ زرداری صاحب کی تصوراتی عمارت میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ اب جب وہ پھنس گئے ہیں اور دوبارہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں تو میاں نوازشریف اینٹ سے اینٹ بجانے کی بجائے اینٹ سے اینٹ لگانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ جس طرح آصف علی زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر میاں نوازشریف کی بے وفائی کی وجہ سے الٹا اینٹ سے اینٹ جوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، اسی طرح اب نوازشریف، زرداری صاحب کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے اینٹ سے اینٹ بجانے کا خیال ترک کرکے اینٹ سے اینٹ جوڑنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔
شریفوں کی خوش فہمی کی ابتدا بعض ملاقاتوں کے حوالے سے ہوئی، امید پیدا ہوئی، لیکن دوسری جانب بھی تحفظات موجود ہیں کیونکہ اسی طرح کی یقین دہانیاں 2000 میں ان کے والد صاحب کی طرف سے دی گئی تھیں لیکن موقع ملتے ہی وہ جنرل پرویز مشرف کے پیچھے پڑ گئے۔ تاہم والدہ محترمہ کی اس ملاقات کے بعد محترمہ کلثوم نواز کی رحلت کی آڑ لے کر چپ کا روزہ رکھا گیا اور میاں شہبازشریف کو معاملات آگے بڑھانے کا مینڈیٹ دے دیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک شہباز شریف اینٹ سے اینٹ جوڑنے میں مصروف ہیں جبکہ میاں نوازشریف اپنی زبان بندی اور مریم نواز اپنے ٹویٹر کی خاموشی کے ذریعے سیمنٹ وغیرہ فراہم کررہے ہیں۔ میاں شہباز شریف پوری طرح پرامید ہیں۔ ان کی اس پرامیدی کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان صاحب کی مرضی کے بغیر ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے اور پھر ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو پی اے سی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ یہی وہ عمل ہے جس کو بعض حکومتی وزرا این آر او کا نام دے رہے ہیں اور یہی وہ اصل رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قریب نہیں آرہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی جو ہلکی پھلکی راہ و رسم ہے، اس کا مقصد مذکورہ صورت حال میں اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کرنے کے سوا کچھ نہیں اور زرداری صاحب بھی چونکہ ان معاملات سے واقف ہیں اس لئے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ قربت کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کررہے ہیں۔ وہ بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ راہ ورسم اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ کے ساتھ ملاقاتوں کو دبائو بڑھانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں لیکن دونوں کے فوری اکٹھ کے بارے میں وہ بھی زیادہ پرامید نہیں۔ تاہم یہ معمہ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اونٹ کسی ایک طرف کروٹ لے۔ اب یا تو این آر او ہوجائے گا یا پھر میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف دوبارہ نظریاتی بن جائیں گے۔ زرداری صاحب کا معاملہ اب سنجیدہ ہے اور ان کے پاس سردست نظریاتی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تاہم این آر او کے لئے دونوں کے سامنے شرائط بہت سخت ہیں۔ اول الذکر سے مطالبہ ہے کہ وہ بیٹی سمیت کنارہ کش ہوجائیں جبکہ ثانی الذکر سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ بہن سمیت آئوٹ ہوجائیں۔ ظاہر ہے یہ مطالبات تسلیم کرنا دونوں لیڈروں کے لئے اتنا آسان بھی نہیں۔ دوسری طرف حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ دونوں کے خلاف اس قدر اشتعال انگیز اقدامات اٹھائے جائیں کہ ان کی بات ہی نہ بن سکے۔ اس لئے این آر او کی کوششوں کے باوجود زیادہ امکان یہی ہے کہ جلد یا بدیر میاں نوازشریف ایک بار پھر نظریاتی بن جائیں اور شاید دونوں مولانا فضل الرحمان کی اقتدا میں مشترکہ سیاسی نماز پڑھنے پر بھی آمادہ ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شریف برادران اور زرداری صاحب پوری کوشش کررہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کی طرح تابعدار اور لاڈلے بن جائیں لیکن حکومت اپنے اقدامات سے ان کو نظریاتی بنانے کے جتن کررہی ہے۔