کہتے ہیں کہ ایک شخص کو الہ دین کا چراغ مل گیا۔ جس کے رگڑنے سے جن، کیا حکم ہے میرے آقا کے نعرے کے ساتھ حاضر ہوجاتا۔ چراغ ہاتھ میں لے کر وہ شخص گوشت لینے بازار گیا جہاں اس کی قصائی سے لڑائی ہوگئی پہلے سوچا کہ جن صاحب تو بڑے بڑے کاموں کے لئے ہیں اور اس معمولی مسئلے پر ان کی توانائی خرچ نہیں کرنا چاہئے لیکن پھر سوچا کہ چلو اس معمولی کام سے آزمائش تو ہوجائے گی اور بعد میں اس کو بڑے بڑے ٹاسک دے دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے چراغ کو رگڑ ااور پلک جھپکتے ہی جن، کیا حکم ہے میرے آقا کے نعرے کے ساتھ حاضرہوگیا۔ چراغ کے مالک نے جن کے سامنے فریاد کی کہ اس قصائی نے ان کا جینا حرام کردیا ہے۔ ہمیشہ گوشت کی جگہ ہڈیاں دے دیتا ہے۔ ریٹ بھی زیادہ لگاتا ہے اور بدتمیزی بھی کرتا ہے۔ آج تو اس نے گالم گلوچ کی بھی حد کردی۔ چنانچہ جن حاضرہوں میرے آقا کہہ کر قصائی کی دکان سے متصل کریانے کی دکان پر گیا اور دکاندار کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔ چراغ کا مالک جن کو سمجھانے لگا کہ دکاندار سے نہیں قصائی سے جھگڑا چل رہا ہے لیکن جن پھر بھی قصائی کو چھوڑ کر دکاندار ہی کے پیچھے پڑا رہا۔ تنگ آکر چراغ کے مالک نے جن کو ہاتھ سے پکڑا اور اس کا رخ دکاندار کی بجائے قصائی کی طرف کرکے کہنے لگا کہ لڑائی اِس سے ہے، دکاندار سے نہیں۔ جو کرنا ہے قصائی کے ساتھ کرلو۔ اس پر جن نے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں چراغ کے مالک سے کہا کہ آقا وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کا مجرم قصائی ہے لیکن کیا آپ اس کے ہاتھ میں یہ ٹوکہ نہیں دیکھ رہے۔ اس کو چھیڑا تو مجھے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔
ان دنوں مجھے یہ لطیفہ یوں بار بار یاد آرہا ہے کہ پاکستان کے اصل مالکوں اور سادہ لوح عوام نے عمران احمد خان نیازی صاحب کو الہ دین کا چراغ سمجھا تھا۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد چراغ رگڑا گیا تو اس سے، شیخ رشید احمد، فواد چوہدری، شہریار آفریدی، فیاض الحسن چوہان، مراد سعید اور علی محمد خان جیسے جن برآمد ہوگئے۔ وہ تقریروں، پریس کانفرنسوں اورٹی وی ٹاک شوز میں بار بار پاکستان کے اصل حکمرانوں اور عوام کے سامنے اعلان کرنے لگے کہ کیا حکم ہے میرے آقا۔ شہریار آفریدی صاحب تو کیمروں کے جھرمٹ میں کبھی تھانوں میں گھس جاتے تو کبھی ایئر پورٹس میں۔ ہر طرف وزیروں کی طرف سے دھمکیاں تھیں اور کیا حکم ہے میرے آقا کا شور تھا۔ اتنے میں تحریک لبیک کے قائدین فتووں اور گالیوں کے ٹوکے لے کر میدان میں نکل آئے۔ عوام کے جان ومال کے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ تو انہوں نے کردیا۔ چنانچہ پاکستان کے مجبور عوام اورمیڈیا نے الہ دین کے چراغ رگڑنے شروع کئے۔ پہلے سب سے بڑے جن قوم سے خطاب کے لئے حاضرہوئے اور دھمکیاں دے کرچین چلے گئے۔ پھر باری باری دوسرے جن کبھی اسمبلی کے فلور تو کبھی ٹی وی ٹاک شوز میں دھمکانے لگے۔ Let me assure you اور Writ of the State کے الفاظ و زیر مملکت برائے داخلہ نے اس قدر دہرائے کہ ہمارے بچوں کو بھی یاد ہوگئے۔ پاکستانی عوام سراپا انتظار تھے کہ نہ جانے اب کیا ہوگا لیکن آخر میں شہریار آفریدی اور فیاض الحسن چوہان، تحریک لبیک کے قائدین کو چھوڑ کر مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کے پیچھے پڑ گئے۔ تحریک لبیک کے وہ رہنما جنہوں نے اداروں کے سربراہوں کے خلاف فتوے صادر کئے اور فوجیوں کو بغاوت پر اکسایا، وہ سب دندناتے پھررہے ہیں لیکن عام شہریوں کو گرفتار کیا جارہا ہے یا پھر مسلم لیگ(ن) کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ چراغ کے مالک یعنی پاکستانی عوام اور میڈیا جن صاحبان کی توجہ دلارہا ہے کہ حضور احتجاج کی کال تحریک لبیک اور مذہبی جماعتوں نے دی تھی نہ کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی نے لیکن اسمبلی کے اندر تقاریر ان کے خلاف ہورہی ہیں۔ تحریک لبیک کے قائدین اب بھی حکومت اور ریاست کو دھمکارہے ہیں لیکن فیاض الحسن چوہان اور شہریار آفریدی کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ میں مسلم لیگ(ن) کے کارکن ملوث تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ حضور اصل ذمہ داری احتجاج کی کال دینے والے قائدین پر عائد ہوتی ہے لیکن جن صاحبان ان کو چھوڑ کر عام کارکنوں اور شہریوں کی پیچھے لگ گئے ہیں۔ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ وزارت داخلہ اس ویڈیو کو دیکھے جس میں عدلیہ، حکومت اورفوج کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر اکسایا گیا ہے اور جس کی تفصیلات سے وزیراعظم ہی نے قوم کے نام اپنے خطاب میں عوام کو آگاہ کیا لیکن شہریار آفریدی پریس کانفرنسز کرکے عوام سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے والے لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھجوادیں۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں آسیہ کیس اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی صورت حال پر بحث ہوگی لیکن کارروائی شروع ہوتے ہی جن صاحبان میاں نوازشریف اور آصف زرداری پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ ظاہرہے کہ سب جن خادم رضوی اور افضل قادری کے ہاتھ میں فتوے اور ہجوم کا ٹوکہ دیکھ رہے ہیں۔ اگلے دن کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے جہاں سب جن، جنِ اعظم کے سامنے کارکرگزاری پیش کرتے ہیں۔ وہاں قصائی کی جگہ دکاندار پر چڑھائی کرنے والے جنوں کو شاباش ملتی ہے اور اگلے روز کے لئے قصائی کی بجائے دکانداروں پر چڑھائی کے لئے مزید منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ پاکستان کے اصل مالک اور پاکستان کے بے چارے عوام الہ دین کے چراغ کے مالک کی طرح حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔
پی ٹی آئی کے وزراء اور ترجمان صاحبان نے یہ رویہ صرف تحریک لبیک کے معاملے میں نہیں بلکہ کم وبیش ہر معاملے میں اپنا رکھا ہے۔ آپ پاکستان کے اندر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا رونا روئیں تو جواب میں علی محمد خان صاحب انڈیا کے خلاف تقریر شروع کردیتے ہیں۔ آپ قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی طرف توجہ کرلیں تو شہریار آفریدی صاحب کشمیرمیں ہندوستانی مظالم پر تقریر شروع کردیتے ہیں۔ آپ مالاکنڈ اور قبائلی علاقہ جات میں سینکڑوں مسنگ پرسنز کا ایشو چھیڑ دیں تو مراد سعید صا حب ماڈل ٹاون کے واقعے پر جذباتی تقریر شروع کردیتے ہیں۔ آپ میڈیا کی مشکلات اور قدغنوں کا رونا روئیں تو فواد چوہدری صاحب میڈیا میں فیک نیوز کا رونا شروع کردیتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں پی ٹی آئی کے دھرنوں کے دوران کئی افراد کی ہلاکت کی غلط خبر دے کر فیک نیوز کی روایت انہوں نے قائم کی ہے۔ آپ عدلیہ، حکومت اور فوج کے خلاف تحریک لبیک کے قائدین کی ہرزہ سرائی کی طرف توجہ کرلیں تووہ پرویز رشید اور نہال ہاشمی کی ان سے ملتی جلتی لیکن ان کی نسبت بہت معمولی گستاخیوں کا تذکرہ شروع کردیتے ہیں۔ اگر واقعی یہ لوگ اتنے بہادر ہیں اور شاید ہیں تو سوال یہ ہے کہ جوبہادری یہ لوگ میڈیا یا مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف اپنے قائد عمران خان، عدلیہ اور فوج کی سپورٹ میں دکھاتے ہیں، وہ بہادری اب ٹوکہ بردار فتویٰ بازوں کے بارے میں کیوں نہیں دکھاتے۔