یقیناًمیاں نوازشریف عظیم صدموں سے گزرے ہیں۔ اقتدار سے محرومی، بدنامی، بچوں کیخلاف کیسز اور پھر بیٹی سمیت جیل جانا۔ ان سب سے بھاری صدمہ محترمہ کلثوم نواز مرحومہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر ان کا واپس آنا اور پھر دیار غیر میں ان کی عدم موجودگی میں ان کی رحلت کا صدمہ ہے۔ ان کے دل پر لگایہ زخم معمولی زخم نہیں اور اس کے مندمل ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مرحومہ کے چہلم تک ان کو کسی بات پر طعنہ دیا اور نہ تنقید کا نشانہ بنایا لیکن یہ کیا کہ چہلم کے بعد بھی انہوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ قوم کیا ان کی غلام ہے اور کیا مسلم لیگ(ن) کے ورکرز ان کے مزارع ہیں؟ کارکن تو کیا پارٹی کے اچھے بھلے رہنمائوں اور ممبران پارلیمنٹ کو بھی معلوم نہیں کہ میاں نوازشریف نے چپ کا روزہ کیوں رکھا ہے اور مریم نواز صاحبہ کہاں غائب ہیں؟۔ کہتے ہیں ڈیل کی ہے اور نہ کریں گے لیکن خاموشی ایسی بھرپور اور پراصرار ہے کہ اس شک کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ ڈیل ہوئی ہے، ڈیل کی کوشش کی جارہی ہے یا پھر خوف ہے، اس کے سوا اس خاموشی کی کوئی اور توجیح پیش ہی نہیں کی جاسکتی۔ میاں شہبازشریف صاحب سے ملاقاتیں ہوسکتی ہیں لیکن میڈیا سے بات نہیں کی جاتی۔ عدالت میں پیشی کیلئے تسلسل کیساتھ اسلام آباد آیا جاسکتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی کیلئے محترمہ کی رحلت کا بہانہ کرکے اسلا مآباد آنے سے معذرت کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے اس لئے خاموش ہیں۔ جبکہ ہم عرض کرتے ہیں کہ حکومت گراسکتے ہو اور نہ گرانے کی کوشش ہونی چاہئے لیکن یہ کہاں کی سیاست ہے کہ قوم کو حکومت اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود صرف اپنے کیسز کی فکر کی جائے۔ ڈالر ایک دن میں آٹھ روپے مہنگا ہو تو بھی میاں نوازشریف خاموش رہتے ہیں۔ چلیں اور کچھ نہیں کرسکتے بیان تو جاری کرسکتے ہیں۔ لیکن الٹا میڈیا کو طعنہ دیا کہ چونکہ آپ لوگ نشر نہیں کرسکتے اسلئے میرے بولنے کا فائدہ نہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بطور لیڈر میڈیا کو آزادی دلوانابھی ان جیسے لیڈروں کا فرض ہے۔ چلیں مان لیا کہ میڈیا سنسر شپ کی زد میں ہے اور میاں صاحب جیسے لوگوں کے خیالات کو من وعن رپورٹ نہیں کرسکے گا لیکن سوال یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے ٹوئٹر کو کیا ہوگیا۔ وہ جو ہر گھنٹے اس اکائونٹ سے کوئی نہ کوئی ٹوئٹ نازل ہوتا تھا، اتنے عرصے سے خاموش کیو ں ہے؟۔ وہ آپ کا تقریر نویس جو آپ کی تقریروں میں اداروں کیخلاف زہر گھول کر دیا کرتا تھا اور جو آپ کو راتوں رات طیب اردوان بنا کر اداروں سے لڑانے کا مشورہ دے رہا تھا، کہاں غائب ہے؟۔ آخر آپ کے اوپننگ بیٹسمین خواجہ آصف کے لہجے میں وہ تمکنت کیوں نظر نہیں آتی؟۔
معاملہ حق اور باطل کا نہیں ممکن اور ناممکن کا ہے۔ پاکستان میں سیاست اور صحافت میں کیا ہونا چاہئے کا نہیں بلکہ کیا ہوسکتا ہے کا سوال درپیش ہوتا ہے۔ اصولی طور پر کوئی انسان تب تک جمہوریت پسند ہونہیں سکتا جب تک وہ سویلین بالادستی کیلئے سرگرم عمل نہ ہو لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں ہم میاں صاحب کو جو دہائی دیا کرتے تھے اس کی بنیاد یہی زمینی حقائق تھے۔ ہم جانتے تھے کہ آپ بہادر ی کا مظاہرہ کرکے جنگ تو چھیڑ دیتے ہیں لیکن پھر زیادہ دیر اس کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔ ہم جانتے تھے کہ آپ کے دائیں بائیں ماروی میمن، خسرو بختیار اور اسی نوع کے کھوٹے سکے ہیں جو آزمائش کے وقت میں ساتھ نہیں دے سکتے۔ ہم جانتے تھے کہ جو بیانیہ آپ لے کر چل پڑے ہیں اس میں خود آپ کا جانشین اور سگا بھائی بھی آپ کے ساتھ نہیں۔ ہم جانتے تھے کہ آپ کے وہ خوشامدی مشیر اور تقریر نویس جو آپ کوجنگ کی طرف دھکیل رہے تھے، خود کتنے وفادار اور بہادر ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ آپ جس مسلم لیگ کے سربراہ ہیں وہ ووٹ دینے والی پارٹی ضرور ہے لیکن لڑنے والی ہر گز نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم جانتے تھے کہ آپ نے طیب اردوان کی طرح ڈیلیور کیا ہے اور نہ ان کی طرح دیگر اداروں کے مقابلے میں برتر اخلاقی پوزیشن پر فائز ہیں۔ اسی لئے چوہدری نثار علی خان پارٹی کے اندر آپ کو مشورہ دے رہے تھے کہ گزارہ میاں صاحب گزارہ اور اسی لئے ہم جیسے طالب علم ٹی وی اور اخبار کے ذریعے آپ سے التجائیں کرتے رہے کہ لڑائی مول لینے کی بجائے ڈیلیوری اور احتساب کے منصفانہ نظام کی طرف توجہ دیں۔ لیکن افسوس کہ آپ اپنے خوشامدیوں کے "ووٹ کو عزت دو" اور " روک سکو تو روک لو" جیسے سہانے نعروں پر یقین کرنے لگے۔
یقیناً خوشامدی ٹولے نے اہم کردار ادا کیا لیکن اس انجام کے ذمہ دار میاں نوازشریف خود یوں ہیں کیونکہ مشیروں اور اردگرد کے ٹولے کا انتخاب بھی لیڈر خود کرتا ہے۔ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ خود میاں صاحب کا فیصلہ تھا کہ کھری بات سنانے والے اور منہ پر صحیح مشورہ دینے والے چوہدری نثار علی خان اور غوث علی شاہ جیسے لوگوں کو دور اور خوشامدیوں کو قریب کیا جائے۔ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ خود میاں صاحب اور ان کی بیٹی کا فیصلہ تھا کہ مخلصانہ تنقید کرنے والے صحافیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور خوشامدیوں کو سرکاری عہدے دے کر میڈیا کو بدنام کیا جائے۔ مسلم لیگ(ن) کی بدحالی میں بنیادی کردار کسی اور کا نہیں بلکہ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کا ہی رہا۔ یہ عجیب فوج تھی کہ جس کا سپریم کمانڈر(میاں نوازشریف) اور چیف آف جنرل اسٹاف (میاں شہبازشریف) مخالف فریق کے منت ترلے اور بیچ بچائو میں مصروف تھا۔ ایک بھائی ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ میدان میں تھا اور دوسرا بھائی اس نعرے کو اپنانے کی بجائے ترقیاتی کاموں پر ووٹ مانگ رہا تھا۔ انتخابات کے بعد ایک بھائی نتائج کو یکسر مسترد کررہا تھا اور دوسرا بھائی اسمبلی میں بیٹھنے اور لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کیلئے بے تاب تھا۔ میاں نوازشریف نے میاں شہباز شریف کو اس لائن کی اجازت اس لئے دے رکھی تھی کہ سوچ رہے تھے کہ خود انقلابی رہ کر بھائی کے ذریعے کوئی راستہ نکال لیں گے لیکن حتمی نتیجے کے طور پر وہ ان کے بیانیے کو آگے لے جاسکے اور نہ کوئی راستہ نکال سکے۔ میاں شہباز شریف نے یہ سوچا تھا کہ وہ بچ گئے تو بھائی کو بھی بچالیں گے لیکن خود بھی اس لئے نہیں بچ سکے کہ مخالف فریق جانتا تھا کہ یہ حتمی نتیجے کے طور پر بھائی ہی کے ساتھ ہیں۔
میاں نوازشریف بہت گہرے آدمی ہیں اور ان کے اردگرد جمع ہونے والے خوشامدی ان سے زیادہ گہرے ہیں۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ ایک بار پھر وہ پوری قوم کو بے وقوف بنارہے ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس عمل میں ایک بار پھر خود بے وقوف بن جائیں۔ ہم تو جو دیکھتے ہیں وہ یہی ہے کہ کسی بھی صورت معافی کا ملنا مشکل ہے۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ اس پراسرار خاموشی کانتیجہ رسوائی کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔ اگر عدالتوں سے میرٹ پر بھی ریلیف مل جائے تو یہ تاثر جائے گا کہ ڈیل کے نتیجے اور خاموشی کے صلے میں مل گئی اور اب اگر خاموشی کے بعد بھی ریلیف نہ ملا تو کارکن اور ووٹر مفت میں بدظن ہوجائے گا۔ لوگ پھر وہی طعنہ دیں گے کہ دیکھو تابعداری بھی کرلی لیکن پھر بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ پھر نوازشریف اور مریم نوازشریف کو بھی وہی طعنہ ملے گا جو اس وقت میاں شہباز شریف کو دیا جارہا ہے۔ مرضی ان کی اور ان کے خوشامدی مشیروں کی ہے لیکن ہم تو بہر حال اب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ میاں صاحب اگر لڑ نہیں سکتے تھے تو خطرہ مول کیوں لیا؟