آپ نے کسی کو امید دلائی ہو کہ اگلے سال ان کو باعزت نوکری دلوائیں گے۔ ایک سال ان سے انتظار بھی کروایا ہو۔ اس امید کے بدلے میں انہوں نے آپ پر پیسہ بھی خرچ کیا ہو اور آپ کو وقت بھی دیا ہو۔ سال کے درمیان میں وہ وقتاً فوقتاََ آپ کو وعدہ یاد دلاتے رہے اور آپ اپنے وعدے کی تجدید کرتے ہوئے ان کو یقین دلاتے رہے کہ نوکری بہر صورت دلوائوں گا لیکن سال مکمل ہونے کے بعد آپ یوٹرن لے کر اس شخص سے کہیں کہ ان کو تو نوکری نہیں مل سکتی۔ اس تناظر میں یہ یوٹرن جھوٹ ہے اور جھوٹ کو اللہ نے سنگین ترین انسانی جرائم میں سرفہرست قرار دیا ہے۔ شاید اسی لئے ریاست مدینہ قائم کرنے والے اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے جھوٹ کو منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک قرار دیا ہے اور پھر اللہ نے اپنی کتاب میں وعید سنائی ہے کہ جہنم میں منافق کا ٹھکانہ کافروں سے بدتر ہوگا۔ انّ المنافقین فی الدّرک الاسفل من النّار۔
یوٹرن لینے والے کا دوسرا نام وعدہ خلاف بھی ہے۔ آپ نے قوم سے وعدہ کیا کہ میں تمہیں کشمیر فتح کرکے دوں گا لیکن وقت آنے پریوٹرن لے کر آپ ان کو نصیحت کریں کہ زمینی حقائق کی روشنی میں کشمیر کو بھول جائیں۔ آپ نے قوم سے وعدہ کیا ہو کہ میں کبھی غیرجمہوری طاقتوں سے ساز باز نہیں کروں گا۔ آپ کے اس وعدے کی بنیاد پر لاکھوں لوگوں نے آپ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیا ہو لیکن وقت آنے پر یوٹرن لے کر آپ ان قوتوں کا آلہ کار بن جائیں۔ تو یہ وعدہ خلافی ہے۔ آپ نے وعدہ کیا ہو کہ آپ کسی کرپٹ کو ساتھ نہیں ملائیں گے لیکن وقت آنے پر آپ یوٹرن لے کر عذر پیش کریں کہ کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملانا مجبوری ہے۔ یہ سب کچھ یوٹرن اور وعدہ خلافی ہے۔ اسی طرح آپ نے وعدہ کیا ہو کہ آپ مرجائیں گے لیکن اسمبلی کے اندر دوبارہ نہیں جائیں گے۔ آپ کے اس وعدے کو سچا مان کر لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے ہزاروں گھنٹے ضائع کئے ہوں۔ پولیس کے ڈنڈے کھائے ہوں اور لوگوں سے لڑائیاں مول لی ہوں لیکن ایک دن پھر آپ اچانک یوٹرن لے کر اس اسمبلی کے اندر چلے جائیں تو یہ ان لوگوں کے ساتھ وعدہ خلافی ہے۔ یوں آسان الفاظ میں وعدوں سے متعلق یوٹرن لینے والا وعدہ خلاف ہوتا ہے اور ریاست مدینہ قائم کرنے والے اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے وعدہ خلافی کو بھی منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک قرار دیاہے اور پھر اللہ نے اپنی کتاب میں وعیدسنائی ہے کہ جہنم میں منافق کا ٹھکانہ کافروں سے بھی بدتر ہوگا۔ انّ المنافقین فی الدّرک الاسفل من النّار۔
آپ کے پاس کسی نے امانت رکھی ہو۔ آپ نے ان کو ہر طرح کا یقین دلایا ہو کہ ان کی امانت محفوظ رہے گی۔ وقتاً فوقتاً آپ ان کو یقین دلاتے رہے کہ ان کی امانت کا ہر طرح خیال رکھا جائے گا لیکن اچانک ایک روز یوٹرن لے کر آپ اس شخص کو بتادیں کہ ان کی امانت تو ضائع ہوگئی ہے۔ اسے سادہ الفاظ میں خیانت کہا جائے گا۔ ہمیں ہمارے علماء اور لیڈر بتاتے ہیں کہ ووٹ اور لیڈر پر اعتماد امانت کی ایک قسم نہیں بلکہ اہم ترین قسم ہے۔ اب اگر کوئی لیڈر یوٹرن لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹروں اور اپنے اوپر اعتماد کرنے والوں کی امانت میں خیانت کرتا ہے۔ اس تناظر میں یوٹرن لینے یا امانت میں خیانت کرنے والا خائن ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ قائم کرنے والے اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے خیانت کوبھی منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک قرار دیا ہے اور پھر اللہ نے اپنی کتاب میں وعید سنائی ہے کہ جہنم میں منافق کا ٹھکانہ کافروں سے بدتر ہوگا۔ انّ المنافقین فی الدّرک الاسفل من النّار۔
ریاست مدینہ کےبانی حضرت محمد ﷺ پر جو قرآن نازل ہوا اس میں حکمت کا درس تو دیا گیا ہے لیکن یوٹرن سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو قربان کرنے پرتو آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن یوٹرن کا خیال بھی ذہن میں نہیں لاتے۔ فرعون نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف ہرحربہ استعمال کیا لیکن اللہ کے اس نبی نے کبھی یوٹرن کا نہیں سوچا۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کو قریش مکہ نے ہر طرح کالالچ اور ترغیب دی لیکن آپﷺ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ آپ کو ہجرت کی صعوبت برداشت کرنی پڑی لیکن کسی یوٹرن کے لئے آمادہ نہ ہوئے اورصراط مستقیم پر گامزن رہے۔ آپ نے ہر طرح کی آزمائش اور سختی برداشت کی لیکن قریش اور اہل کتاب کے ساتھ کئے گئے کسی بھی معاہدے پر یوٹرن تو کیا لیفٹ یا رائٹ ٹرن بھی نہیں لیا۔ یہ تو خیر اللہ کے پیارے نبیوں کا معاملہ ہے جواللہ کے برگزیدہ انسان تھے اور وہاں سے براہ راست رہنمائی پاتے تھے۔ ان کا تو معاملہ ہی الگ ہے لیکن اللہ نے آخری نبی ﷺ کے امتیوں کا جو وصف بیان کیا ہے وہ یہی ہے کہ ان کی زندگی یوٹرن سے پاک ہوتی ہے۔ وہ صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں اور دن میں پانچ وقت درجنوں مرتبہ اللہ سے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی دعا مانگتے ہیں۔ قرآن کی پہلی سورت یعنی سورۃ فاتحہ میں ہے کہ اھدناالصراط مستقیمoصراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالینoترجمہ :اے اللہ ہم کو سیدھے راستے چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے اپنا کرم کیا۔ نہ ان کے رستے پر جو آپ کے غضب کے مستحق ٹھہرے اور جو گمراہ ہیں۔ گویا اللہ رب العالمین نے بالکل واضح کردیا ہے کہ صرف وہی لوگ ان کے فضل و کرم کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو صراط مستقیم پر چلتے ہیں اور یوٹرن لینے والے گمراہ ہیں جو ان کے غضب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یوں مومن کے لئے یوٹرن لینے سے گریز اور صراط مستقیم پر گامزن رہنا اس قدر ضروری ہے کہ اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے اس سورۃ فاتحہ کو نماز کا حصہ بنا دیا جس میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے اور یوٹرن سے دور رہنے کی دعا مانگی گئی ہے اور پھر ہر مسلمان کے لئے یہ لازم کیا گیا کہ وہ دن میں کئی مرتبہ اپنے رب سے یہ دعا مانگے کہ اسے صراط مستقیم پر گامزن رکھا جائے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس وقت ایسا لیڈر نصیب کرایا گیا ہے کہ جو نام تو ریاست مدینہ کا لیتے ہیں لیکن لیڈر کے لئے یوٹرن لینا لازمی قرار دے رہے ہیں۔ وہ اور ان کے ترجمان تقریر ایاک نعبدوایاک نستعین سے شروع کرتے ہیں لیکن پھر یوٹرن لے لے کر اس کے فضائل بھی بیان کرتے ہیں۔ البتہ اپنی مبارک زبان سے یوٹرن کے فوائد بیان کرکے ہمارے وزیراعظم نے میرے کئی سال کے ایک مخمصے کو ضرور حل کردیا۔ میں سوچتا تھا کہ عمران خان صاحب اور ان کے ہمنوا کیوں ہر تقریر کا آغاز صرف ایاک نعبدوایاک نستعین سے کرتے ہیں لیکن پوری سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں اور نہ ایاک نعبدوایاک نستعین سے آگے جاتے ہیں۔ اب میں سمجھا کہ آگے تو اھدناالصراط مستقیم کی آیت آتی ہے اور ظاہر ہے کہ صراط مستقیم میں کسی یوٹرن کی گنجائش ہوتی۔ دوسری طرف وہ یوٹرن کو اپنی زندگی اور لیڈر کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں۔ وہ چونکہ یوٹرن لیتے اور اس کو اپنے لئے لازمی قرار دیتے ہیں اس لئے شاید ڈر کے مارے صراط مستقیم کی دعا نہیں مانگتے کہ کہیں دعا قبول نہ ہوجائے۔ صراط مستقیم پر گامزن ہوئے تو پھر تو یوٹرن نہیں لے سکیں گے جو ان کے بقول لیڈر بننے کے لئے ضروری ہے۔