موت کی حقیقت یہ کہ وہ لمحہ موجود میں رہتے ہوئے بھی اپنے مسافر کو بے خبر رکھتی ہے، مانتے سب ہیں کہ وقت کا کچھ پتہ نہیں کب کس کا بلوا آجائے، لیکن پوری شدو مد کے ساتھ اختلاف کو نفرت کی عینک کے ساتھ دیکھتے ہیں، اور دلیل کے نظریے کو دفن کر کے نفرت کے بیج کی خون سے آبیاری کی جاتے ہے اور نتیجہ میں شدید نفرت جنم لیتی رہتی ہے، اور اگر سامنے کوئی خاتون ہو تو بس پھر تو جو کچھ نہ کہا جائے وہ کم، سب سے آسان کام ہمارے ہاں کسی کے کردار کشی ہے اور عورت جتنی حساس ہے اسکا ہی فائدہ اٹھا کر سب سے آسان ہے کہ اسکے کردار کو ہد ف تنقید بناﺅ۔
تین روزہ سوگ کے بعد عدالت لگے گی، مدعی بھی ہوں گے گواہ بھی، جج بھی ہوں گے اور کٹہرا بھی، نہیں ہوگا تو کوئی عاصمہ جہانگیر جیسا وکیل نہیں ہوگا ۱۱ فروری 2018 کی شام ایک قابل خاتون کی موت کی خبر کے ساتھ ڈھل رہی ہے، میں نے کسی سے جگہ ایک ضعیف حدیث کے حوالے سنا کہ ایک بار موت نے اللہ کی بارگاہ میں کہاکہ باری تعالی میں بہت بری ہوں جہاں جاتی ہوں وہاں لعن طعن ہی پڑتی ہے جب کہ میں تو آپکا حکم بجا لاتی ہوں تو، اللہ نے موت سے کہا کہ اب کوئی تمھیں موردالزام نہیں ٹھرائے گا، بلکہ حادثے اور سانحات کہ سبب لوگ موت کو تسلیم کریں گے اور وقت آگیا ہے کہہ کر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں گے، واللہ اعلم بصواب ہوسکتا ہے ان جملوں میں کو ئی کمی بیشی ہو گئی ہو، لیکن اسکو تحریر کونے کا مقصد یہ ہے کہ آج عاصمہ جہانگیر کی موت کی خبر سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا یہ وقت نہیں تھا جانے کا، اور پھر خود ہی تسلیم کیا کہ یہ تو حقیقت ہے اور کسی نہ کسی بہانے اس نے تو آنا ہی آج عاصمہ جہانگیر ہے تو کل کوئی اور ہو گا، عاصمہ جہانگیر کے نظریات سے میری ذاتی رائے میں اختلاف رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہو گی، جو یقینا انکا حق ہے، لیکن جن بنیادی باتوں پر عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ بات کی اس میں سب سے اہم معاملہ انسانی حقوق کا رہا، میں انکے پیپلزپارٹی کے ساتھ تعلقات، یا مسلم لیگ ن کے ساتھ نظریاتی اختلافات کی تذکرہ نہیں کرنا چاھتی لیکن یہ بات ضرور لکھنا چاھتی ہوں کہ انکے انسانی حقوق کے نظریے میں اگر ان سے مخالفت رکھنے والوں کو کہیں انکی ضرورت پڑی تو عاصمہ جہانگیر وہاں موجود ہوتی تھیں، عورتوں کے حقوق پر انھوں نے بے شمار کام کیا، وہ یہ بات بڑے وثووق سے کہتی تھیں کہ ریاست میں قانون سب کے لئے ایک ہونا چاھئے، وہ اپنی جدوجہد پر نازاں نہیں تھیں بلکہ اکثر میں نے خود ان سے سنا کہ چلو کم یا زیادہ بات لوگوں تک پہنچ رہی ہے difference of opinionہونا چاھئے، انھوں نے جس طرح اپنے ہم عصر قانون دانوں میں اپنی الگ پہچان بنا ئی وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے عاصمہ جہانگیر بہت سے لوگوں کے لئے، آر ایس ایس کی رکن تھیں، ملک دشمن، تھیں فوج اور اسلام مخالف تھیں، غرض یہ کہ جتنی منفی باتیں کہہ کر ان سے نفرت کروائی جائے وہ کم ہے، میں پھر کہتی ہوں، نظریہ پر اختلاف ہوسکتا اور ہونا چاھئے لیکن نفرت نہیں، عاصمہ کے نظریہ کے مطابق انصاف اندھا نہیں رہا، اب اسکی ایک خاص نظر اور خاص ذہن ہے جس پر فیصلے آتے ہیں، ضروری نہیں کہ میں آپ اس رائے سے متفق ہوں لیکن یہ انکی رائے تھی، عاصمہ کہتی تھیں کہ سیاستدان جس درخت پر بیٹھے ہیں اس پر خود ہی آری چلاتے ہیں، ہوسکتا ہے یہی سوچ میری بھی ہو، عاصمہ کہتی تھیں کہ اسٹیبلیشمنٹ کے کرتا دھرتا ہر ادارے مین اپنے لوگوں کو سرایت کرواتے ہیں تاکہ ایک خاص بیانیہ ترتیب دیا جاتا رہے ہو سکتا ہے یہ بات ہضم نہ ہوکسی سے لیکن یہ انکا نظریہ تھا، جسکا ہر گز یہ مقصد نہیں تھا کہ ان سے نفرت کی جائے یا انھیں ملک کا غدار کہا جائے، وہ انڈیا کے ساتھ رابطے بڑھانے پر اپنا یک خاص نقطہ نظر رکھتی تھیں، اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ جیسے اہم موضوع کو عاصمہ نے ہمیشہ رد کیا اور کہا کہ اگر انڈیا یا پاکستان دونوں نے اس حماقت کا سوچا بھی تو کم یا زیادہ نقصان بہرحال دنوں ملکوں کی عوام کا ہوگا، جرمنی اور فرانس جیسے ابدی دشمن جب اپنے اپنے مفادات پر نتیجہ خیز تبدیلی لاکر اپنی معیشت کو مضبوط بناسکتے ہیں تو ہندوستان اور پاکستان کیوں نہیں یہ مجھ جیسے ناقص العقل کا اپنے قاری سے سوال بھی ہے؟ اوراس پر انکی رائے کی منتظر بھی ہوں، عاصمہ جہانگیر نے ہر فوجی آمر کے سامنے اپنی آواز کو بلند کیا، اور اپنے والد کی غیر قانونی حراست سے لیکر اقلیتوں کے حقوق اور عورتوں کے تحفظ کے لئے ہمیشہ کام کرتی رہی، عاصمہ جہانگیر کا ماننا تھا کہ پاکستان کا سویلین ہمارے اداروں کا پیٹ پالتا ہے، لیکن جب اسے اس بابت سوال کیا جائے تو پارلیمنٹ فارغ ہونے لگتی ہے، اور ملک کے وسیع تر مفاد کے فیصلے سامنے آجاتے ہیں، عاصمہ جہانگیر کالے کوٹ والوں کی بدمعاشی پر بھی تنقید کرتی رہیں، اور وکلاءکے حقوق کے لئے بھی آواز اٹھاتی رہی انھوں نے وکیلوں کے ریفامز کی بھی ہمیشہ بات کی، عاصمہ جہانگیر کی موت پر سوشل میڈیا میں بھی ہر طرح کے تاثرات دیئے جارہے ہیں، ایک صاحب نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ، مولویوں پر تنقید کرنے والوں کا جنازہ مولوی ہی پڑھائے گا، مجھ افسوس ہوا بلکہ یقین مانیں شدید افسوس ہوکہ، ہم نے معاشرے سے احساس کو ایسے نوچنا شروع کردیا کہ، کیا کوئی بھیٹریا کسی کو نوچے گا، لیکن یہ چہرے ہمارے آس پاس ہیں اور یہ کس قسم کا معاشرہ پروان چڑھا رہے ہیں میرا خیال ہے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں، وہ کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس ایک دھیمے مزاج کہ انسان ہیں جبکہ سابق چیف جسٹس جناب ناصر الملک اور تصدیق حسین جیلانی صاحب بھی ٹھنڈے مزاج کے لوگ تھے، لیکن افتخار محمد چوہدری کی جانب سے پہنچایا گیا نقصان اتنی جلدی پر ہونے کی توقع رکھنا ٹھیک نہیں، دوسری طرف عاصمہ جہانگیر نے ڈیب اسٹیٹ سے لیکر ہمیشہ ان اندیکھے سایوں کا کہا جو انکے مطابق قانون سے بالاتر ہے اور یہی انکی تشویش رہی، عاصمہ ایک بے باک، نڈر اور اپنی منفرد سوچ رکھنے والی ایک عورت تھیں، جنھوں نے مظلوموں کے لئے آواز اٹھائی جنھوں نے اقلیتوں کا ساتھ دیا، جس نے ہمیشہ ایک عورت ہوکر اپنی جفاکشی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عورت کے حق سے اسے آشنا کروایا، آج وہ چلی گئیں ہیں اب عاصمہ کسی چیف کے سامنے آواز بلند نہیں کرسکیں گی لیکن اپنے اپنے ضمیر کی آوازوں سے پیچھا چھڑانا سب کے لئے ہی مشکل ہوگا، تنقید کرنا، اختلاف رائے کو دلیل کا لباس دینا، لیکر کے فقیر بن کر نہ رہنا ہوسکتا ہے عاصمہ جہانگیر کا جرم ہو، عاصمہ جہانگیر خاک کے سپر کردی جائے گی انکی نمازہ جنازہ 13 فروری کو لاہور میں ادا کی جائے گی، میں ٹی وی پر کئی لوگوں کو دیکھ رہی ہوں جو عاصمہ جہانگیر کے گھر کی جانب بہت بے چین قدموں سے جارہے ہیں عاصمہ کو سپر خاک کرنے حق کی آوازموت کے سناٹے میں بدل گئی ہے اس موت پر کون کون آنسو بہتا ہے اور کون نہیں یہ تو سب کا اپنا اپنافعل ہے لیکن حق کی آوازکو بلند رکھنے کا حوصلہ سب کا ہونا چاھئے۔