کہتے ہیں خوشی جس کو زمانے کے لئے ہے
جو غم ہے وہ زہراؐ کے گھرانے کے لئے ہے
یہ آہ لب نیم شبی تشنہ دہاں کی
اب عرش الہی کو ہلانے کے لئے ہے
پابند سلاسل ہے جو سجادؑ کی حسرت
محشر میں وہی حشر اُٹھانے کے لئے ہے
یہ ہاتھ ہے بس ماتم شبیرؑ کی خاطر
جو اشک ہے آنکھوں میں بہانے کے لئے ہے
جس خاک پہ رکھتے ہیں قدم شہ کے دلاور
وہ خاک تو آنکھوں سے لگانے کے لئے ہے
جائیں بھی کہاں چھوڑ کے ہم کرب و بلا کو
جنت بھی کہیں چھوڑ کے جانے کے لئے ہے
سینے میں منافق کے دہکتا ہوا شعلہ
سادات کے خیموں کو جلانے کے لئے ہے
اس دشت بلا خیز میں کہتی تھی سکینہؐ
اب خاک یتمی کی اُڑانے کے لئے ہے
شبیر ؑ کی تنہائی سے کہتی ہے ضعیفی
میت کوئی اکبرؑ کی اُٹھانے کے لئے ہے
انصاف سے بتلاؤ کہ یہ آل نبی کی
بازار میں سر ننگے پھرانے کے لئے ہے
یہ وارث تطہیر کہاں شام کا دربار
یہ غم تو محمدؐ کو رلانے کے لئے ہے
یہ دن بھی تو مخصوص ہے بس سینہ زنی سے
’’یہ رات فقط رونے رلانے کے لئے ہےـ‘‘
جو شعر بھی شاہدؔ نے کہا ہے غم شہ میں
بس شعر وہی ہے جو سنانے کے لئے ہے