جو گزرتی ہے مرے دل پہ وہ اب مت پوچھو
مجھ سے تم میری اداسی کا سبب مت پوچھو
چاہنے والا تمہارا ہوں یہی کافی ہے
اے مری جان مرا نام و نسب مت پوچھو
پھر وہ چہرہ ہے وہی خواب پریشانی ہے
پھر وہی بصرہ و بغداد و حلب مت پوچھو
کوئی لشکر ہے کہ شب خون کی تیاری ہے
شور کیسا ہے سر کوچہ شب مت پوچھو
ایک دریا ہے جو تصویر ہوا جاتا ہے
میرے اندر ہے کوئی تشنہ بلب مت پوچھو
بھوک کھا جاتی ہے آئین جہانگیری بھی
کس کو کہتے ہیں یہ تہذیب و ادب مت پوچھو
زندگی تجھ سے شکایت تو نہیں ہے لیکن
مجھ پہ دنیا نے جو ڈھائے ہیں غضب مت پوچھو