اے دل ترے مہمان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اس زلف پریشان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اک خواب کہ جچتا نہیں آنکھوں میں ہماری
شاید تری مسکان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اس سرد سے موسم میں خزاوں کی ہوا میں
گل رنگ ہیں ارمان سے کچھ بھول ہوئی ہے
رستوں میں خموشی کا بہت شور سنا ہے
اک منزلِ انجان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اک عمر کہ تنہائی میں گزری ہے ہماری
ہوتی ہے جو انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھولے نہیں بھولے گا ترا طرزِ تخاطب
یہ دل ہے کہ نادان سے کچھ بھول ہوئی ہے