چھا گیا ہے بستی پر پھر ملال کا موسم
کوچ کرچلو صاحب ہے زوال کا موسم
کیا تمہیں بتائیں ہم قصہء بتاں جاناں
ذہن میں ہراساں ہے اک سوال کا موسم
روزوشب کی چکی میں پس کے رہ گئے ورنہ
آگیا تھاچوکھٹ تک پھر وصال کا موسم
قید سے جو نکلےہم دشت میں پناہ پائی
راس آ نہیں سکتا اعتدال کا موسم
خامشی کا محور تھیں اسکی بولتی آنکھیں
ختم ہوگیا جاناں قیل و قال کا موسم
بارشوں کی رم جھم میں درد کے کھلےصحرا
روپ کی کہانیِ ہے اک کمال کا موسم