چاندنی رات میں رم جھم کو گھٹا کہتے ہیں
وقت چلتے ہوئے تھم جائے تو کیا کہتے ہیں
ہم بھلا تم سے خفا؟ کیسے؟ کہاں ممکن ہے؟
یونہی دشمن نے اڑائی ہے ہوا کہتے ہیں
ایک الجھن مری آنکھوں میں کہیں ہے پنہاں
خود ہی پڑھ لو مرا پیغامِ وفا کہتے ہیں
ہاتھ سے جام گرا، پھول گرے، اور پھر دل
تم جو پوچھو ہو، بتاتے ہیں حیا کہتے ہیں
ہم نے اک عمر گزاری ہے ترے رستے میں
ایک آہٹ سی سنی ہے کہ دعا کہتے ہیں
دل ہے ویران اداسی سی بچھی ہے ہر سو
رنگ موسم نے جو بدلی ہے ادا کہتے ہیں
بات تو سچ ہے کہ آنکھوں میں بسے ہو تم ہی
کون کہتا ہے کہ ہم اس کو خطا کہتے ہیں