اک قصۂ پارینہ دھندلا سا ہے آئینہ
گنجینۂ گوہر ہے یادوں سے بھرا سینہ
کیوں آنکھ چراتے ہیں ملتے ہیں جو محفل میں
اک وقت میں اپنــــے تھے یہ ہمدمِ دیرینہ
بہتا ہوا پانی بھی تھم جائے جنبش سے
چھیڑو نہ کوئى نغمہ خاموش ہے سازینہ
اک کن کی صداؤں میں مدہوش غمِ ہستی
ہم رقص مہ و انجم چھلکے ہیں مے و مینا
آنکھوں میں لئے وحشت ساحل سے اُلجھتے ہیں
طوفانوں کی چاہت میں مرنا بھی ہے اب جینا
اک قصۂ پارینہ ہے دھند کے رستـــــے میں
تا حدِ نظر دیکھوں تخلیق کا آئینہ