ڈھونڈ آتے ہیں کوئی لال وگہر پانی میں
آزماتے ہیں چلو اپنا ہنر پانی میں
دل میں طوفاں سے الجھنے کا سمایا سودا
ڈوب جائے نہ کہیں اپنا ہی گھر پانی میں
ایک کشتی ہے، سمندر ہے، اکیلے ہیں ہم
کس طرح ختم کریں اپنا سفر پانی میں
پیاس اگتی ہے امر بیل کی مانند یہاں
یاد آتا ہے ہمیں اپنا شجر پانی میں
آنکھ یوں ڈوب کے ابھری ہے تری یادوں سے
جس طرح کوئی بسایا ہو نگر پانی میں
کس عقیدت سے برستا ہے برستا پانی
جیسے تریاق کا رکھا ہو اثر پانی میں