اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
کبھی کبھار سوچتا ہوں خدا کا ہم پر کتنا احسان ہے کہ پورا سال ہمیں ایسے ایّام دیتا ہے کہ ہم رسولِ پاک علیہ الصلوٰتہ والسلام اور ان کی آلِ پاک علیہم السلام کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ سال کی ابتدا ہوتی ہے تو قیام و شہادتِ امام حسین عیہ السلام اور پھر صفر میں سبطِ پیغمبر امام حسن مجتبی کی بے خطا شہادت ہمیں خدا کی حقانیت، رسولِ پاک ص کی بعثت، اور فلسفہِ دین سمجھا جاتی ہے۔ ابھی ان کے ایام گزرتے ہی ہیں تو ربیع الاول کی بہاریں آ جاتی ہیں دل و دماغ کیا چرند پرند ہوائیں فضائیں “ یا رسول اللہ ص آپ آئے بہار آئی” کی صدائیں دیتی نظر آتی ہیں۔ ابھی عید میلاد النبی ص کی محافل اپنے اختتام کو پہنچتی ہیں تو ایامِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ شروع ہو جاتے ہیں اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ امت نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ سیدہ باپ کی جدائی کے چند دنوں بعد دنیا چھوڑ گئیں؟
اسی کے ساتھ سیدہ کی ولادت کے ایام آتے ہیں وہ ایام جب رسول ص کے گھر خوشیاں آئیں۔ ہر طرف جشن کا سماں ہے بتول ع کے بابا کو مبارکباد دی جاری ہے۔ اتنے میں دستر خوانِ امام حسن کا اہتمام ہو جاتا ہے اور سب یاد کرتے ہیں کہ کیسے مدینہ کے سخی بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ کچھ دن گزرتے ہیں اور امام علی نقی علیہ السلام کی ولادت ۵ رجب آ جاتی ہے۔ خوشیاں ہر سو شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ اب رکنا نہیں کیونکہ آگے مولائے کائنات ع کا جشنِ مولود کعبہ مانایا جانا ہے جب کائنات اپنے مولا ع کے جشن میں سرشار نظر آتی ہے۔ وہ سردار جو پہلی خوراک آقا ص کی زبان چوس کر حاصل کرتا ہے اور پہلا دیدار حبیبِ خدا کا کرتا ہے جس کے لیے خدا کا گھر زچہ خانہ بن جاتا ہے۔
میلاد کے ساتھ ہی کونڈوں کی نیاز اور مومنین کی ضیافت۔ امام موسی کاظم ع کے ایام جو ہمیں یاد کرواتے ہیں کہ بنی عباس نے کس طرح ۱۴ سال تک امام کو زندان میں قید رکھا۔ شبِ معراج آتی ہے اور بتاتی ہے رسول ص کو خبردار اپنے جیسا نہ کہنا انہیں تو جبریل اپنے جیسا نہیں کہ سکتا۔
پھر جشنِ شعبان شروع امام حسین ع، غازی عباس ع، بی بی زینب س گویا زہرا س کے گلشن کے پھول کھلنے کا موسم ہے۔ ابھی یہ جشن چل رہے ہوتے ہیں کہ شبِ نیمہِ شعبان آ گئی امامِ زمانہ عج کی ولادت کی رات ہمیں اپنے امام ع سے قریب تر کر دیتی ہے عریضے لکھنے کی رات۔ اپنے امام ع سے راز و نیاز۔ شعبان گیا رمضان آیا اور خدا کے حضور روزہ دار اپنے گناہوں کی معافی مانگتے دعاؤں اور عبادات میں مشغول، اتنے میں ۱۵ رمضان آتا ہے جان نشینِ حیدرِ کرار حسنِ مجتبٰی کا جشنِ ولادت مومنین جھوم رہے ہیں عید سے پہلے عید کی خوشیاں۔ لیکن ساتھ ہی وہ مسلمان یاد آتے ہیں جو علی ع کی گردن پر اللہ اکبر کے نعرے سے ضرب لگاتے ہیں اور ۲۱ رمضان کو رسول ص کا پیارا ان ہی کی امت کے ہاتھوں بے وفائی کے زخم کھائے واپس چلا جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے مومن منافق کی پہچان کروا جاتا ہے۔
عید آئی خدا کے حضور شکرانہ ادا کیا کہ ہمیں عبادت کا موقع دیا۔ ذی القعد آیا اور امامِ رضا ع کی ولادت کی خوشیوں کا سامان لایا اور پھر بڑی عید جو یاد کرواتی ہے کہ ذبح عظیم کو مت بھولنا۔
پھر عیدِ غدیر کب رسول اللہ نے اپنی جان نشینی کا اعلان فرما دیا اور وہ کسی کا فقرہ بھی کہ علی ع مبارک ہو آج سے آپ میرے اور پوری امت کے مولا ہیں۔
اور آخر میں مباہلہ جہاں خدا نے پنج تن پاک علیہم السلام کا تعارف کروا دیا۔ اور ساتھ بتا دیا کہ سچا کون ہے جھوٹا کون اور ان سچوں کے مقابل آنے والوں پر بحکم خدا لعنت کی جائے گی۔ آگے تاریخ ہے کون کون ان کے مقابل آیا اور تا قیامت لعنت کا مستحق ٹھرا۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ جھوم جھوم کر کہیں
فبای َءالاءِ ربکما تکذبان
واقعی میرے مالک تیری کون کون سی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔
اگر تو نے ہمیں حبِ آلِ نبی ص نہ دی ہوتی تو اس زندگی کا مقصد ہی کیا رہ جاتا؟
بے شک حبِ محمد و آلِ محمد ص وہ گلدستہ ہے کہ جب تک اسے آپ اپنے دل سے لگائے رکھتے ہو یہ آپکی زندگی مہکائے رکھتا ہے۔