1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. انگریزی نظام برصغیر میں کب اور کیوں لایا گیا؟

انگریزی نظام برصغیر میں کب اور کیوں لایا گیا؟

علم و تربیت انسان کی سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ہے۔ ہماری تاریخ میں اس کی عملی تابندہ امثال موجود ہیں۔ ایک طرف جہاں مسجد نبوی ﷺ میں چبوترے پر اہلِ صفہ علم حاصل کر رہے ہیں، تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کے لیے آزادی کے بدلے اَن پڑھ صحابہ کرام کو تعلیم یافتہ بنانے کی شرط رکھی جاتی ہے اور کبھی مسجد نبویﷺ کا ہال دینی، سماجی اور معاشرتی مسائل کی افہام و تفہیم کا منظر پیش کرتا ہے۔

ایک وہ وقت بھی تھا جب اس روئے زمین پر مسلمان ایک ترقی یافتہ اور سپر پاور کے طور پر موجود تھے۔ اس علم نے انسان کو اپنے خالق حقیقی کی پہچان دِی جس کے علم نے انسان کو شعور بخشا۔ اس علم میں اپنی تہذیب و تمدن، عدل و انصاف، مساوی حقوق، اتفاق واتحاد، یگانگت اور معاشرہ امن کا گہوارہ بنایا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجوداخلاقی، علمی تنزلی کا شکار، معاشرہ ٹوٹ رہا، ہر طرف بدامنی، افراتفری، اَدب واحترام کا فقدان ہے۔

ہماری تعلیم صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہو کر رہ گئی۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ وہ علم ہی نہیں جو آدمی کو انسان بنائے۔ یہ نظامِ ہی الگ ہے جس کا بنیادی مقصد ہمیں اپنی تہذیب و تمدن سے دور دھکیل کر انتشار کی دلدل میں اتارنا ہے۔ یہ نظامِ تعلیم برصغیر میں کب اور کیوں لایا گیا؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازم چارلس گرانٹ نے تجویز پیش کی کہ عظیم برطانیہ کو ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ انگریزی زبان و اَدب اور مغربی سائنسی علوم کے ذریعے طاقت بڑھانی چاہیے۔

اس رائے کو پسند کیا گیاا ور اس مقصد کے لیے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی گئی(چارٹر ایکٹ 1813ء)۔ 1830ء میں مشرقی اور مغربی علوم کے بارے میں مخالفت زور پر تھی۔ لارڈ میکالے نے وزنی نکات پیش کر کے اس مسئلے کے حل کی کامیاب کوشش کی۔ لارڈ میکالے 25اکتوبر 1800ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک مضمون نگا ر تھا، سماجی و سیاسی موضوعات پر مضامین لکھے۔ میکالے 1839ء اور 1841ء کی جنگوں میں "سیکریٹری آف وار" کے عہدے پر فائز رہا۔

1846ء اور 1848ء کے دوران "پے ماسٹر جنرل" کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ 1835ء میں جب انگلش ایجوکیشن ایکٹ بنا تو میکالے نے اصرار کیا کہ ہندوستان کے لوگوں کو انگریزی اَدب پڑھایا جائے، کیونکہ انگریز اچھی طرح جانتے تھے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم سے برصغیر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا تھا جبکہ انگلش لٹریچر پڑھنے سے معاشی ترقی ممکن نہیں تھی۔ لارڈ میکالے 1834ء میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ وائسرائے کی کونسل کا قانونی ممبر تھا لارڈ بنٹنک نے اسے پبلک انسٹرکشن کی جنرل کمپنی کا چیئر مین بنا دیا۔

لارڈ میکالے کے ذمہ تھا کہ و ہ گورنمنٹ کو اس کے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے رہنمائی دے۔ اگرچہ لارڈ میکالے نے سابقہ نظام تعلیم کا صفایا کرنے سے متعلق تجاویز دینے سے گریز کیا تاہم ذریعہ تعلیم سے متعلق اس نے اپنی مشہور تجاویز فر وری 1835ء میں پیش کیں جو کارنامہ لارڈ میکالے نے انگریزو ں کے لیے سر انجام دیا۔ لارڈ میکالے نے سارے ہندوستان کو انگریزی رنگ میں رنگ دیا (لارڈ میکالے رپوٹ 1835ء)۔

لارڈ میکالے کی رپورٹ کے نمایا ں نکات:1۔ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو:ہندوستانی تعلیم کے لیے ذریعہ تعلیم انگریزی ہو گی کیونکہ تمام ہندوستانی زبانیں بڑی ناقص ہیں اور انگریزی، عربی اور سنسکرت سے بہتر ہے۔ انگریزی کے حق میں لارڈ میکالے نے درج ذیل دلائل پیش کیے:

ا۔ انگریزی جدید علوم کی کنجی ہے اس وجہ سے عربی اور سنسکرت سے بہتر ہے۔ ب۔ مغربی زبانوں میں بھی انگریزی کی حیثیت بڑی نمایاں ہے۔ ہندوستان میں انگریزی حکمران طبقہ کی زبان ہے۔ اس لیے تمام مشر قی سمندروں میں اس زبان کا تجارتی و کاروباری زبان بننا زیادہ مناسب ہے۔ ج۔ انگریزی ہندوستان کو زیادہ تہذیب یافتہ بنائے گی۔ یہ ہندوستان میں نشاۃ ثانیہ لائے گی۔

د۔ ہندوستانی خود بھی انگریزی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہ۔ عوام کے بجائے خاص طبقے کی تعلیم کی وکالت عوام کی بجائے خواص کے طبقے کی تعلیم کی وکالت کی گئی میکالے نے کہا انگریزی زبان کی تعلیم کے ذریعہ سے ہی یہ ممکن تھا کہ ہندوستانی لوگوں میں سے ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو رنگ اور خون کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن سوچ و فکر کے لحاظ سے انگریزی ہو اور یہ تعلیم حکمران طبقہ سے عوام میں منتقل کی گئی۔

2۔ اَد ب کا مطلب:لارڈ میکالے نے کہا: اَدب کا مطلب ہے انگریزی اَدب جیسا کہ 1833ء کے چارٹر میں بیان کیا گیا ہے۔ اس جد و جہد کو تقویت پہنچانے کے لیے میکالے نے ایک عمدہ عبارت پیش کی ایک اچھی یورپی لائبریری کا ایک شیلف تمام مقامی اَدب سے زیادہ قیمتی ہے۔

3۔ ہندستانی سکالر ز کی تعریف:ہندوستانی سکالر سے مراد وہ شخص ہے جس نے لاک کی فلاسفی اور ملٹن کی شاعری پڑھی ہو۔

4۔ مشرقی و مذہبی مدارس کی گرانٹ بند کر دی گئی:میکالے نے کہا: اگر حکومت نے محسوس کیا کہ اس کی پرانی تعلیمی پالیسی ناکام ہو گئی ہے تو اس پالیسی کو تبدیل کر دیا جائے گا اور اس کی گرانٹ بند کر دی جائے گی۔

میکالے رپورٹ کے مقاصد:اس رپورٹ کا سب سے نمایا ں مقصد انگریزی ذریعہ تعلیم کے ذریعے انگریزی تعلیم کا فروغ تھا۔ لارڈ ولیم، بنٹنک نے اس کی تائید کی اور اس کی رپورٹ کو قبول کیا اور 7مارچ 1835ء کی اپنی قرارداد میں اسے منظور کرنے کے احکام جاری کیے۔ کیونکہ متحدہ ہندوستان کے گورنرجنرل کی کونسل کے پہلے رکن برائے قانون کے طور پر لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمان میں 2فروری 1835ء کو اپنے خطاب میں کہا:

"میں نے ہندوستان کے ہر خطے کا سفر کیا ہے۔ مجھے وہاں کوئی بھکاری اور چور نظر نہیں آیا۔ میں نے اس ملک میں بہت خوشحالی دیکھی ہے۔ لوگ اخلاقیات و اقدار سے مالا مال ہیں، عمدہ سوچ کے مالک لوگ ہیں اورمیرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو زیر نہیں کرسکتے جب تک ہم انہیں مذہبی اور ثقافتی طور پر توڑ نہ دیں، جو کہ ان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں تجویز کرتاہوں کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب بدل دیں۔ اگر ہندوستانیوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اشیاء سے بہترہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے اور حقیقت میں ہماری مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں "۔

اس تقریرکے بعد لارڈ میکالے کو ہی ہندوستان کا نظام تعلیم وضع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ٹھیک 22سال بعد 1857ء میں اس نے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ ہندوستان کے لوگوں میں اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے بارے میں نفرت پیدا ہوتی چلی گئی اور لوگوں نے ترقی کا ضامن اپنے زبان کی بجائے انگریزی زبان کو سمجھنا شروع کردیا۔ یہی سوچ پاکستان میں آج تک برقر ار ہے، بلکہ اس کی جڑیں آج گہری در گہری ہو تی چل جارہی ہیں۔

ہم اسلام کی زریں اصولوں کو اپنائے بغیر ترقی کر سکتے ہیں نہ ہی نسل ِ نو کا مستقبل تابناک ہو سکے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنا دستور چھوڑ کر غیروں کے بنائے اصول اپنا کر انصاف کر سکیں یا ترقی کی منازل طے کر سکیں۔ یہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس نظام سے مساوات، عدل، اَمن کی اُمید مردہ گھوڑے پر چابک برسانے کے مترادف ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ اسلام کا نظام، اس نظام سے بہترہے تو ہم اپنا قومی وقار اور تہذیب بحال کر سکیں گے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔