جو شخص اس زندگی کی لذتیں چاہتا ہے، ہم اس کے اچھے اعمال کا بدلہ یہیں چُکا دیتے ہیں اور کوئی کمی نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ آج ہمیں اپنی تہذیب یکسر بھول گئی۔ ہم اسیرِ دُینا ہو گے۔ ہماری ایک تہذیب ہے۔ جس میں پوری زندگی گزارنے کا فلسفہ ہے۔ غریب سے کیسے پیش آنا، امیر کے ساتھ کیا سلوک۔ ہم آج کھانا، پینا، کھیلنا، عمدہ لباس، کوٹھی، سٹیٹس، ناپیدار اور کھوکھلی اشیاء جن سے انسان خود اکتا جاتا ہے ان کے پیچھے بھاگ رہے۔
آج ہمیں رحمت العالمین ﷺ سے لے کر صحابہ کرامؓ اسلاف کے کار ہائے نمایاں تو درکنار، ہمیں سب کے نام کنیت، لقب تک یاد نہیں۔ آج ہمیں دولت، محل بنانے، کاروں میں سفر، دیگر طیباتِ حیات سے متمتع ہونے کے باوجود اضطراب و بے چینی سے دوچار ہیں، مہنگائی، قتل و غارت، خود کشی، ایک دوسرے کے باہم دست و گربیان ہیں اور پھر ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ: "کچھ لوگوں کو پچھتاوا بھی نہیں ہوتا، اور ہم سوچتے رہتے ہیں کہ شاید کسی وقت انہیں احساس ہوگا اپنے منفی رویے کا، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے پچھتاوئے بھی ظرف والوں کے لئے ہوتے ہیں، بے حس لوگوں کے پاس صرف اپنا آپ ہوتا ہے"۔
یہ حقیقت غیروں نے بھی تسلیم کی کہ دولت، شہرت، غریبوں سے نفرت، غرور آپ کو کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ ڈاکٹر الیگزینڈر کانن کہتا ہے: "نیک راہوں پر چلنے سے ہم ایک ایسے افق پہ جا پہنچتے ہیں جہاں اللہ سے شرفِ کلام حاصل ہوتا ہے، کتنے عظیم ہیں وہ اسرار جن کا علم ہمیں علیم و خبیر رب کے آفاقی دماغ سے تعلق قایم کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے"۔
دراصل یہ وہ نا قابلِ تردید حقائق ہیں جنہیں آج ہم سادگی کا نام دے کر نظر انداز کر رہے ہیں وہی حقیقاً دِل کا سکون ہیں۔ معاشرے میں یتیم بچوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا، علم کے متلاشی کی مالی امداد کر دینا، غم زادہ کا غم بانٹ لینا، غربیوں سے میل جول، یہ وہ اثاثہ ہیں جو جسم میں عروق و اعصاب کا حیرت انگیزجال، کاروانِ بہار کو سیل رنگِ و بو بسا دیتے ہیں وہ لوگ قابلِ دید ہیں جو ان بے سہاروں کی خاطر سب کچھ قربان کر تے ہوئے کائنات کی سب سے بڑی لذت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مکمل ضابطِ حیات موجود ہے۔ ہماری اخلاقی تہذیب ہے ہر ایک کی اپنی حیثیت ہے۔ ہمارا اخلاق ہمارا سرمایہ ہے۔ انسان پھول کی مانند ہے کئی سے محبت، رحم گداز، انسانیت جیسی خوشبو جنم لیتی ہے جس سے سارا معاشرہ مہک اٹھتا ہے اور کئی کے کردار سے حقارت، نفاق کی وہ گھن آتی ہے کہ معاشرہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک قول ہے کہ: "نفرت کبھی نفرت سے ختم نہیں ہو سکتی"۔
آج ہم گمنام منزل کے مسافر ہیں۔ آج ہم مصائب و الم میں گر کے وہی سب ہم نے اپنا لیا جس کے باعث تباہی کو دعوت خود دی جاتی ہے فرمایا: "کیا بدکاروں کا یہ خیال ہے کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے؟ ان کا یہ خیال نہایت خام اور غلط ہے"۔ ہماری مائیں بہینیں، بیٹیاں جو ہماری عفت و حیاء کی پہچان، وہی آج مغرب سے بھی بدترین لباس، بوائے، گرل فرنیڈ۔ تہذیب کے زوال، غیر معیاری گفت و شنید، بازار کی رونق بن گئیں۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دُنیا مکافاتِ عمل ہے کئی اعمال کی بدولت حادثات، بیماری، مالی نقصان، تجاری خسارے اور متعدد آلام میں گر چکے ہیں۔ بے حیائی، فحاشی، عریانی، تہذیب و اخلاق کی پستی نے ہمیں تباہی کے دہانے لا کھڑا کر دیا۔
ہمارا معاشرہ تو کجاء ہمارے اداروں میں بھی درسِ اخلاق کا فقدان ہوتا جا رہا، سیمنار، روشن خیالی کے نام پر خود اپنی ہی تباہی کا سامان کیا جانے لگا، علم، دُنیاوی جا و جلا ل کے ہوتے بھی ہمارا قلب ویران ہے۔ دراصل جس جگہ سکون ہے وہ ہم منزل ہی بھول چکے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے ہی تو دماغ میں فکر کا دِیا، دل میں وجدان کی ہمہ بین آنکھ لگائی، جسم میں عروق و اعصاب کا حیرت انگیز جال بچھایا، کاروانِ بہار کو رنگ و بو دیا۔
فرمایا: "جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور احکامِ خداوندی کو مانتے ہیں، جو شرک کے عیب سے پاک ہیں، جو اللہ کی راہ میں حسبِ استطاعت صرف کرتے ہیں اور جن کے دِل اس خیال سے لرزاں رہتے ہیں کہ اُنہوں نے اللہ کے پاس جانا ہے"۔ ہماری کسی بھی شے میں خلوص، انسانی کا احترام، رشتوں کا تقدس، پہچان ہی حرف غلط کی طرح مٹ گی۔ ہوس کی مانگ ہے، مطلب کی دوستی، مگرکسی نفس کو کسی شہ سے کوئی پیار تو نہیں ہے۔ ہماری ساری دُنیا ہماری اپنی ذات، مفادات تک محدود ہو کر رہ گئی۔
اسلام کے زریں اصولوں پر غیروں نے عمل کیا ترقی کی منازل کے عروج تک جا پہنچے اور ہم اخلاق کے بدترین گھاٹی کے مسافر بن گے۔ ایک مغربی حکیم کا قول: "نفرت، نفرت سے نہیں ختم ہو سکتی، اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو، دُنیا کو محبت کرنا سکھاؤ اور جنت اپنی تمام تر رنگینوں، رعنائیوں کے ساتھ یہیں نمودار ہو جائے گی"۔
ترکِ محبت موت ہے۔ جدید تعلیم کی محنت لا حاصل ہے ایسی تعلیم ہی کیا جو کم از کم انسانیت، تہذیب، آدابِ زندگی کے طور طریقے ہی نہ بتا سکے۔ ہماری بے حیائی، غرور، روشن خیالی ہمیں لے نہ ڈوبے۔ جدید تعلیم یاقتہ افراد جو کہ اپنی ہی اخلاقی تہذیب، معاشرتی اقدار، حجاب کو ضعف العقیدہ لوگوں کی تخلیق سمجھتے ہیں۔ چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے، بولوں تو تیری رسوائی ہے۔