آزاد کشمیر آٹھ اکتوبر 2005 کا وہ درد ناک دِن ہے جہاں کئی بوڑھے اپنی جوان اولاد کی لاشیں اٹھا رہے تھے، کہیں کندھے دینے والوں نے کندھا مانگ لیا، کئی ماؤں کے کلیجے چھلنی ہوئے، کئی بچے سکول تو گئے لیکن واپسی کے لئے مائیں تاحشر ترسیں گی، کئی بستیاں اجڑ گئی، کئی امیدیں ختم ہوئیں، وہ قیامت صغریٰ اپنے ان گنت نقوش چھوڑ گئی۔ جہاں بڑی تعداد میں بچے اپنے سکولوں میں ہی دفن ہو گئے وہیں بچ جانے والے ننھے دماغوں پر گہرے نقوش ثبت ہو گئے۔
ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یوں بھی کبھی ہوتا ہے کہ آن کی آن میں گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں خاک ہو جائیں؟ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستے معدوم ہو چکے تھے۔ میلوں پیدل دشوار راستوں پر سفر کر کے لوگ اپنے آبائی علاقوں تک جا رہے تھے کہ کسی اپنے کو زندہ سلامت دیکھ سکیں۔
خشکی، بیابانوں اور سمندروں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے بعض اعمال کا بدلہ دیں تاکہ یہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کر لیں۔ (سورۃ روم)۔ زلزلے کی حقیقت اور اس کے اسباب کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک عرصے کے بعد زمین کی پلیٹیں تبدیل ہوتی ہیں۔ جب زمین کی پلیٹیں تبدیل ہوتی ہیں تو اس سے پیدا ہونے والی کشمکش کو زلزلے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔
حدیث کی رو سے زلزلے کی وجہ انسانوں کی بد اعمالیاں اور گناہ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مال غنیمت دولت سمیٹنے کا ذریعہ بن جائے، امانت کو غنیمت سمجھا جائے اور زکوٰۃ کو بوجھ سمجھا جائے دین کا علم دنیوی مقصد کے تحت حاصل کیا جائے، آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔ دوست سے قربت بڑھائی جائے اور باپ سے دوری اختیار کی جائے۔
مساجد میں شور و غل بلند ہونے لگے اور معاشرے کا درسار بنے، کسی کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے۔ اداکارائیں اور موسیقی کے آلات عام ہو جائیں۔ شراب سر عام پی جانے لگے۔ اس امت کے بعد والے لوگ پہلے والوں کو برا بھلا کہیں تو پھر انتظار کرو تند و تیز ہواؤں کا، زمین میں زلزلوں کا، زمین میں دھنسے جانے کا، بندر و خنزیر بنائے جانے کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا اور یکے بعد دیگر ے آنے والی ایسی نشانیوں کا جو تسبیح کی لڑی ٹوٹنے کے بعد تسبیح کے دانوں کے گرنے کی طرح پے در پے آئیں گی۔
"ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: جب شادی شدہ عورتیں بہک جائیں، جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگیں، شراب پیے اور گانوں کی محفلیں سجنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کو آسمان میں غیرت آتی ہے وہ زمین کو حکم دیتا ہے زمین میں زلزلے آنے لگتے ہیں۔ "
سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کرنا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی، اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے۔ جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں۔ ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں۔ سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔
ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دُنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔
جوہری سائنسدانوں نے انتہائی خوفناک اور شدت کے ساتھ زلزلے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہو گا کہ براعظموں کو جدا کر دیگا اور اس سے کروڑوں لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کے براعظم ٹوٹ کے الگ ہو جائیں گے۔ میگا سونامی کے ٹکرانے سے امریکہ اور ایشیاء میں تقریباََ 4 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف لندن میں جوہری انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ڈاکٹر نے دعویٰ بھی کیا کہ یہ سونامی اور زلزلہ اس قدر شدید ہو گا کہ صرف امریکہ کے مغربی ساحل پر 2 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے Svalbard نامی جزیرے میں تمام جینز کو محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ "سوالبارڈ" نارتھ پول اور ناروے کے بیچ میں واقع ایک ٹھنڈا جزیرہ ہے۔ یہ دُنیا کا سب سے سرد علاقہ ہے۔
اس کا درجہ حرارت ہمیشہ منفی ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس میں"حفاظتی تہہ خانہ" بنایا گیا ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 130 میٹر بلند ہے۔ جو کسی بھی سمندری آفت یا سطح سمندر کے بڑھنے کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔ اس میں تین والٹس بنائے گئے ہیں جن میں 15 لاکھ بیجوں کے سیمپلز فی والٹ رکھے جا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر 45 لاکھ نمونے رکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 18 ڈگری رکھا جائے گا جو کہ ان بیجوں اور جینز کی عرصہ دراز تک حفاظت کے لئے ضروری ہے۔
انسان زلزلے سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے اچھی بات ہے۔ حکومتیں سیلاب اور زلزلے کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی سر توڑ کوششیں کریں۔ عوام ایسے اقدامات کو سر آنکھوں پر، لیکن خدارا! حقائق سے آنکھیں نہ چرائیں۔ من حاصل مسلمان قوم ہمیں اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے مگر اس کے برعکس کہا جاتا ہے کہ عمارتیں جتنی مضبوط بنا لی جائیں قدرتی آفات ان عمارتوں کو پھر بھی تباہ کر سکتی ہیں۔ سونامی کو جاپان نہیں روک پایا۔
تباہ کن ہواؤں کو امریکہ قابو نہ کر پایا۔ عمارتیں جتنی زلزلہ پروف بنا لی جائیں زلزلے کے خوف اور اس کے نقصانات سے ا نسان خود کو بچا نہیں پائے گا۔ اسلام آباد، کراچی اور آزاد کشمیر کے کئی علاقوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فالٹ لائنز کے بالکل اوپر ہیں اور کشمیر کی فالٹ لائن پھر سے ایکٹیو ہو چکی ہے۔ جو کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی وقت بڑا زلزلہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلہ انسان کو نہیں مارتا بلکہ لاپرواہی، غفلت اور عدم توجہی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہیں۔ ایسی فالٹ لائن ریڈ زون پر سات سات منزلہ عمارتیں بنانا، بوسیدہ عمارتوں میں رہائش پذیر ہونا خود کشی کے مترادف ہے۔ اسلام نے جان کی حفاظت کو فرض قرار دیا ہے۔
زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتے، بلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں، لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کر لیں اور بد اعمالیوں سے باز آ جائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ مستعد رہیے، غیر متوقع کے لئے تیار رہیں۔