صداقت و شجاعت کے اس کاروان کا امام و رہبر، مجاہد فی سبیل اللہ، سرفروش، راکب دوش خیر الانام ﷺ امام عالی مقام حسین ؑ کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔ اس ذات کے وجود اقدس کے ساتھ نہ صرف ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے قلب کی دھڑکنیں وابستہ ہیں بلکہ ہر غیرت مند انسان کے لیے تا صبحِ قیامت یہ حماسہ ساز، امام الاحرار ہستی عقیدت کا ایک طاقتور مرکز و محور بنی رہے گی۔ نواسہ رسولﷺ امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور حق و باطل کا معرکہ کربلا تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب ِشعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا۔ بقول شاعر:
وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا/مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا/محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا/ تفریق رنگ و نسل پہ غالب ہے کربلا/ تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے/ ہر صاحب شعور کا دِل کربلا میں ہے/ شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب/واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب/ تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب/ اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب/ دیکھو تو سلسلہ اَدب مشرقین کا/ دُنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین ؓکا۔
حضرت اما م حسین ؓ کا کردار اور آپ ؓ کی طرزِ فکر، وہ آفاقی پیغام ہے جو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو در س عمل اور ولولہ شوق عطا کرتارہیگا۔ سانحہ کربلا میں حسینی ؓ طرز ِفکر اور یزیدی طرزِفکرہمارے سامنے آتی ہے۔ طرزِفکرکے یہ دونوں رُخ ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ ظلم کاہر نظام اور ہر فعل یزید یت ہے جبکہ علم و معرفت خدا ترسی، انصاف اور انسان دوستی حسینی ؓ طرزِ فکر ہے۔
امام حسین ؓ شر کے مقابلے میں خیر کے ترجمان ہی نہیں حق کے نگہبان بھی ہیں۔ قتل ِ حسین ؓ اصل میں مرگِ یزید ہے/ اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد۔ واقعہ کربلا زمین پر حاکمیت الہٰیہ قائم کرنے، انسانوں کوان کے بنیادی حقوق دلوانے کا معرکہ تھا۔ اس معرکہ میں نواسہ رسولﷺ نے اپنی آل و اولاد کے ساتھ اپنی جان تک قربان کردی اور زبان حال سے اس بات کا اعلان کر دیا۔ سردار نہ داد، دست در دست یزید!حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
نواسہ رسول ﷺ، جگر گوشہ بتول، جنتی نوجوانوں کے سردار، شہید کربلا سیدنا حضرت امام حسین ؓ ابنِ علی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضورِ ﷺ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنینِ کریمین ؓ حضور ﷺکے سینہ مبارک پر کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا"یارسول اللہ ﷺ!کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟ "آپ ﷺ نے فرمایا"کیوں نہیں یہ دونوں دُنیا میں میرے پھول ہیں "۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا"جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا"(ابنِ ماجہ)
نواسہ رسول ﷺسیدنا حضرت امام حسینؓ کی المناک شہادت کا واقعہ تاریخ اسلام میں ہمیشہ لہو رنگ الفاظ میں لکھا گیا اور بادیدہ تر پڑھاگیا لیکن اس اندوہناک سانحے اور ماتم خیز حادثے کے اندر امت ِمسلمہ کے لئے بہت سے بصیرت افروز ا سباق موجود ہیں۔ 10محرم الحرام 61ہجری کو میدان کربلا میں نواسہ رسولﷺ یزیدی فوج کے لشکر جرار کے سامنے محض 72نفوس قدسیہ کے ساتھ صف آراء تھے۔ انہوں نے آخری لمحات میں بھی امت مسلمہ کو اس حادثہ فاجعہ سے بچانے کی کوشش کی مگر یزیدی فوج کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جگر گوشہ بتولؓ بیعت یزید کریں۔ امامؓ نے اپنا اور اپنے پیاروں کا سرد ینا تو قبول کیا مگر یزید کی بیعت نہیں کی۔ یزید کی شخصی بیعت کے لئے جو ہاتھ بڑھے تھے وہ دراصل اسلام کی جمہوری شمع گل کردینا چاہتے تھے، آمریت کے خاتمے کے لئے ہی امام ؓ عالی مقام نے اپنی اور اپنے افراد خانہ کی قربانی میدان کربلا میں پیش کی، اگر مشیت ایزدی کے مطابق کربلا کی پیاسی سرزمین پاک ہستیوں کے خون سے سیراب نہ ہوتی تو پھر اسلام کی سیاسی تعلیمات میں خلافت و شورائیت کا تصور ماند پڑجاتا۔
امت ِ مسلمہ کے لئے کربلا کا پہلا پیغام یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق امانتیں ان کے اہل افراد کے سپرد کرو اور اگر حق باطل سے بدل رہا ہو توحق و صداقت کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرو۔ اسوہ حسینیؓ کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ ظلم و جبر کے سامنے گردن جھکانے کے بجائے اس کے خلاف ڈٹ جانا چاہئے کیونکہ ظالموں کا ساتھ دینا بذات خود جرم ہے۔ واقعہ کربلا انسانی سرفرازی و سربلندی کی داستان ہے۔ یہ شرف ا نسانیت کی کہانی ہے۔ انسان کی پستی سے بلندی کی طرف ارتقاء کی روداد ہے، اس لئے اس قربانی سے ہمیں تیسرا درس بصیرت یہ ملتا ہے کہ شرف انسانیت کی سربلندی کے لئے ہمیں ہر حال میں کوشاں رہنا چاہئے۔ جناب امامؓ عالی مقام کا ایک فرمان یہ بھی ہے کہ زندگی ہرحال میں جیے جانے کا نام ہے۔ وہ امت مسلمہ کو یاد دلاتے ہیں کہ، ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے، زندگی۔
سب اہم سبق یہ ہے کہ آج ہم من حیثیت قوم خوار کیوں ہو رہے، ہمیں ان فرمودات کے آئینے میں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، حضرت امام حسینؓ نے فرمایا:
وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جو مخلوق کی خوشنودی کے بدلے پروردگار کی ناراضی کا سودا کرے، سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے کسی قسم کی توقع نہ ہو، سب سے بڑا عفو کرنے والا انسان وہ ہے جو قدرت ہونے کے باوجود معاف کر دے، جو کسی مومن کے کرب و غم کو دور کرے، خدا اس کے دُنیا و آخرت کے غم و اندوہ کو دور کرتاہے، دوست وہ ہے جو تمہیں برائی سے بچائے دشمن وہ ہے جو تمہیں برائیوں کی ترغیب دلائے، میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو لائق ملامت سمجھتا ہوں، جب ہم ا سے کچھ طلب کرتے ہیں تو وہ ہمیں عطا فرماتا ہے اور جب کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اس کی مرضی پر راضی ہوجاتے ہیں، شرف کا انحصار تقویٰ پر ہے، دُنیا کا تلخ و شیریں سب خواب ہے، اس خواب سے بیداری آخرت میں ہوگی، ایسے شخص پر کبھی ظلم مت کرنا جس کا اللہ کریم کے سوا کوئی مدد گار نہ ہو، سچائی عزت ہے، جھوٹ ذلت ہے، راز امانت ہے، ہمسائیگی رشتہ داری ہے، مددگاری دوستی ہے، عمل تجربہ ہے، اچھااخلاق عبادت ہے، خاموشی زینت ہے، کنجوسی ناداری ہے، سخاوت مالداری ہے اور نرمی عقلمندی ہے، دُنیا اپنے بسنے والوں کو ایک حال سے دوسرے حال میں متغیر کرنے والی ہے، جس نے تمہارا عطیہ قبول کیا اس نے فیاضی میں تمہاری مدد کی، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تمہیں کھا جائے تم اسے کھا پی لو، علم سیکھنا حصولِ معرفت کا ذریعہ ہے، تم دنوں کا مجموعہ ہو، جو دِن گزرگیا تمہارا ایک جزو کم ہوگیا، قرآن کا ظاہر خوشنما اور باطن بہت گہرا ہے۔
ان زریں اصولوں پر عمل پیرا ہونے، اسوہ حسینیؓ کو زندہ کرنے اور شہادت حسینؓ کا حقیقی مقصد سمجھنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ آج مسلمان کشمیر، فلسطین، میانمار اور بھارت میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، تاہم مسلمانوں کی کئی بڑی قوتیں ان مقہور اور مجبور مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے بجائے اغیار کی سازشوں کا شکار ہو کر لیبیا سے لے کر یمن تک اور عراق سے لے کر شام تک باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ ہم ان سازشوں کا ا دراک کریں اور باہمی اختلافات بھلا کر باطل قوتوں کے خلاف ڈٹ جائیں۔ ہمارے کشمیری بھائیوں نے اسوہ حسینیؓ کی پیروی کا حق ادا کررہے ہیں۔ کشمیر میں کربلا کی تاریخ زندہ کررہے ہیں، انہوں نے اس قول کو اپناماٹو بنا لیا ہے کہ "اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد" کشمیری بھائیوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اپنے جذبوں سے بھارتی ٹینکوں اور توپوں کے رخ موڑ دئیے ہیں۔ ہمارے لیے کربلا کا پیغام یہ ہے کہ کثرت و قلت کو بھلا کر باطل سے دبنے کی نہیں اس کے سامنے ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے پیرو کار دُنیا کے اسباب کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے، بلکہ بظاہر دُنیاوی سپرپاور بھی ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بن جایا کرتی ہیں۔