(مشہور شاعر جون ایلیاہ نے اپنی موت سے ایک دن قبل ایک شعر کہا تھا۔ ’’جی بہت چاہتا رونے کو ہے * جانے کیا سانحہ ہونے کو ہے‘‘ راقم الحروف نے اسی زمین پر مساعی کی ہے)
ایک مجرم آج پیش ہونے کو ہے
جرم اس کا منصف مگر دھونے کو ہے
غم کے چہرے پہ تبسم ہے عیاں
مسکراہٹ آج کیوں رونے کو ہے
داستان غم یہیں پہ روک دو
دیکھو میری آنکھ نم ہونے کو ہے
محبتوں کی آب یاری ہے فضول
نفرتوں کا بیج ’’وہ‘‘ بونے کو ہے
میکشوں کی بے خودی کا ذکر کیا
ہوشمند بھی ہوش اب کھونے کو ہے
اس زمیں پہ میں ہوں غم کا پاسباں
آسماں مجھ پر مگر رونے کو ہے
تم کہو تو میں بھی ناطہ توڑ لوں
ہر کوئی تم سے جدا ہونے کو ہے
موت تو خیر مرگئی ہے دوستو!
نیند بھی کیا کم بخت سونے کو ہے
تو ہنسا جاتا ہے مگر اس بزم میں
ہر کوئی تیار اب رونے کو ہے
اخلاؔ ق اب چلا ہے اس بزم کی جانب
جب آخری شمع بھی گل ہونے کو ہے