اپنے شہر ساہیوال میں چند دن پہلے میں نے لیڈیز کپڑوں کی بوتیک بنائی کام اللہ کے کرم سے اچھا چلنے لگ پڑا کچھ دن بعد میری دکان کے سامنے ایک نئی بوتیک اوپن ہوگئی تو میرا کزن جو میرا پارٹنر بھی ہے وہ بہت پریشان ہوگیا کہ بھائی اب کیا بنے گا ہمارا کام تو بہت سست ہو جائے گا گاہکوں کی توجہ اس دکان پہ زیادہ ہوگی کیونکہ انکی دکان کی ڈیکوریشن زیادہ اچھی ہے۔ میں نے کہا کہ ایسی بات نہیں انکے نصیب کا رزق اللہ نے انکو دینا ہے ہمارا نصیب ہمیں ملے گا ہم دنوں کزن اس نئی دکان پہ گئے بہت اچھے طریقے سے ان سے گپ شپ ہوئی انکو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو سوٹ انکے پاس نا ہو وہ گاہک ہماری طرف بھیج دیتے ہیں اور جو ہمارے پاس نا ہو ہم گاہک کو انکی طرف بھیج دیتے ہیں اس طرح دونوں بوتیکس کا کام اللہ کے کرم سے اچھا چلنے لگ پڑا ہے انسان کو اگر خدا کی ذات پہ یقین کامل ہو تو وہ کثیر رزق عطا فرماتا ہے۔ ہمارے بہت سے کاروباری دوست اس پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ دوسروں کا کام اچھا چل رہا ہے ہمارا کیوں نہیں اور اسی پریشانی کو ایسا دماغ پہ سوار کرتے ہیں کہ بیمار ہو جاتے ہیں اور پھر کاروبار تباہی کے دہانے پہ پہنچ جاتا ہے۔
اللہ پہ توکل کے دو واقعات کا ذکر کر رہا ہوں جو سعودیہ کی لوکل اخبار میں عربی میں چھپے تھےان کا اردو میں ترجمہ کر کے یہاں لکھ رہا ہوں تاکہ ہمارا اپنے رب پہ توکل میں اضافہ ہو جائے۔
برطانیہ، چین اور ملائشیا مشہور سپر سٹورز میں کام کرنیوالے ایک لائق فائق مینجر کو بن داؤد سپر سٹوز مکہ میں کام کرنیکا اتفاق ہوا-
وہ برطانوی نژاد تھا اور بزنس مینجمنٹ کی کتابوں میں اس نے ہمیشہ اپنے مد مقابل منافس (compititor) کو نیچا دکھا کر آگے بڑھنا ہی سیکھا تها-
مکہ مکرمہ میں کچھ عرصہ اس نے بطور ریجنل منیجر کے اپنی خدمات سرانجام دیں- اسی دوران اس نے دیکھا کہ ایک دوسرے نام کے سپر سٹور کی برانچ اسکے سٹور کے بالکل سامنے کھلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں- اس نے سوچا کہ یہ لوگ ادھر آکر اسکی سیلز پر اثر انداز ہونگے- لہذا اس نے فورا بن داؤد سپر سٹوز کے مالکان کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس نئے سپر سٹور کے متعلق کچھ معلومات، مشورے اور آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنے کی تجاویز دیں-اسکو زندگی میں حیرت کا شدید ترین جهٹکا لگا جب مالکان نے اسکو نئے سپر سٹور کے ملازمین کا سامان رکھوانے سٹور کی تزئین و آرائش اور انکے چائے پانی کا خاص خیال رکھنے کا کہا-
اسکی حیرت کو ختم کرنے کیلئے بن داؤد سٹورز کے مالکان نے کہا کہ وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لائیں گے اور ہمارا رزق ہمارے ساتھ ہوگا-
اپنے لکھے گئے رزق میں ہم ایک ریال کا اضافہ نہیں کرسکتے اگر اللہ چاہے- اور نئے سٹور والوں کے رزق میں ہم ایک ریال کی کمی نہیں کرسکتے اگر اللہ چاہے- تو کیوں نا ہم بھی اجر کمائیں اور مارکیٹ میں نئے آنیوالے تاجر بھائی کو خوش آمدید کہہ کر ایک خوشگوار فضا قائم کریں-
دوسرا واقعہ مشہور پولٹری کمپنی کا ہے- الفقیہ پولٹری کمپنی کے مالک نے مکہ مکرمہ میں ایک عظیم الشان مسجد(مسجد فقیہ) بھی تعمیر کی ہے-
اسکی منافس کمپنی الوطنیہ چکن لاکهوں ریالوں کی مقروض ہوکر دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی- فقیہ کمپنی کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی مخالف کمپنی کے مالک کو ایک خط بھیجا اور ساتھ ایک دس لاکھ ریال سے زائد کا چیک بھیجا- اس خط میں لکھا تھا- "میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دیوالیہ پن کے قریب کهڑے ہو، میری طرف یہ رقم قبول کرو، اگر مزید رقم کی ضرورت ہے تو بتاؤ- پیسوں کی واپسی کی فکر مت کرنا- جب ہوئے لوٹا دینا-"
اب دیکھئے کہ ارب پتی شیخ الفقیہ کے پاس الوطنیہ کمپنی خریدنے کا ایک نادر موقع تھا لیکن اس نے اپنے سب سے مخالف کی مالی مدد کرنے کو ترجیح دی-
اوپر بیان کیئے گئے دو سچے واقعات آپکو اسلامی تجارت کے اصولوں سے متعارف کراتے ہیں، جس میں کسی کا برا سوچنے یا ٹانگیں کهینچنے کی بجائے بھلا سوچا جاتا ہے-
ہم لوگ مغرب کے سرمایہ دارنہ نظام کی بهینٹ چڑھ رہے- اللہ پر توکل نام کی چیز اور اپنے مسلمان کی بھلائی کی سوچ ہم میں سے ختم ہوتی جارہی- کسی مخالف کمپنی سے پریشان نا ہوں، اگر آپ اپنا کام ایمانداری سے کرتے اور کسی پر احسان کرتے تو اللہ تعالٰی آپ کا بازو پکڑ کر آپکو کامیابی کی معراج تک پہنچا دیتے- یاد رکهیں، کسی ٹانگیں کھینچنے سے آپکا رزق زیادہ نہیں ہوگا-
اسکے جو نصیب کا ہے اسکو مل کر رہے گا-
آخر میں توکل کے حوالے سے ایک شعر یاد آرہا ہے
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پهر انجام اسکی تیزی کا، قدرت کے حوالے کر