وہ کہنے لگے، کئی روز سے زندگی جام ہو چکی ہے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ لوگوں کو عقل ہی نہیں ہے کہ کیا کر رہے ہیں، لوگوں کی انتہاپسندی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ کچھ لکھتی لکھاتی کیوں نہیں ہو اس پر۔ میرے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا کہ اللہ ہمیں معاف کرے۔ کہنے لگے اللہ تو معاف کر ہی دیتا ہے پر لوگ نہیں کرتے۔ اور میں یہ سوچنے لگ گئی ہاں اللہ تو معاف کر ہی دیتا ہے مگر لوگ معاف نہیں کرتے وہ اپنی عدالت خود ہی لگا لیتے ہیں اور فیصلے بھی سنا ڈالتے ہیں۔
وہ تو یہ سب کہ کر چلے جاتے ہیں پر میرے لیے ایک نیا پنڈارا باکس کھول جاتے جس سے میں دور رہنے کی ممکنہ کوشش کر رہی تھی۔ ہر انسان اپنا بچاو کرتا ہے اور شاید میں بھی یہی کر رہی تھی اس لیے خاموش ہی رہنا چاہتی تھی کیونکہ خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے، کون سچا ہے کون جھوٹا ہے بس اللہ معاف کرے۔ یہ سب منظر دیکھ کر مجھے تو بس خوف آ رہا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے انسانوں نے اپنی عدالت لگا رکھی ہو جہاں وہ سب کی جزا سزا کا فیصلہ کر رہے ہوں اور کہیں ہماری باری نہ آجائے۔
مجھے اس پر کچھ نہیں کہنا ہے کہ حق کیا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ایک بات جو کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے وہ یہ کہ ہم کس روش پر چل رہے ہیں، ہم مذہب میں بھی سیاست کرنا نہیں چھوڑتے۔ ہمیں انصاف پانے کےلیے پہلے بے انصافی کرنا ہوتی ہے لوگوں کا حق چھیننا ہوتا ہے۔
ایک فیصلہ آتا ہے اور پوری قوم میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ ملک کی ایک بڑی جماعت کی سرپرستی میں تین دن احتجاج ہوتا رہتا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو بچانا ہے، ان کی ناموس کی حفاظت ہے بےشک اس کو یقینی بنانا چاہئے مگر کیسے غریب کا روزگار چھین کر، اسے تباہ و برباد کر کے، سڑکوں کو آگ لگا کر، غریبوں کو بھوکا مار کر، اپنے ہی بھائیوں پر ڈنڈے برسا کر، اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کر کے۔
وہ مذہب جو مسجد میں لہسن اور پیاز کھا کر جانے سے منع کرتا ہے کہ اس کی بدبو سے دوسروں کی دل آزاری ہو گی۔ وہ مذہب جو راستے میں پتھر رکھنے سے منع کرتا ہے کہ کہیں کسی مسافر کو تکلیف نہ ہو۔ وہ مذہب جو حقوق انسانیت کو سب سے بڑھ کر رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اسی کے نام پر انسانیت کو روندا جاتا ہے، غریبوں کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔ توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، اپنے بھائیوں کو اذیت دی جاتی ہے۔ وہ مذہب جو پھل دار درختوں کو کاٹنے سے منع کرتا ہے وہاں اسی کے ماننے والے اسی کے نام پر اسی کے بندوں کی ساری زندگی کی محنت چھین لیتے ہیں۔
چلو مان بھی لیتے ہیں احتجاج ہونا چاہیے تھا مگر اگر یہ پر امن طریقے سے ہوتا تو بہتر نا ہوتا، اگر یہ توڑ پھوڑ کے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا، اگر یہ غریب کا رزق چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا، اگر یہ لوگوں کے منہ سے نوالے چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا، اگر یہ غریب کا خیال رکھ کر کیا جاتا تو بہتر نا ہوتا، اگر اپنے ملک کے حالات کا سوچ کر کیا جاتا تو بہتر نا ہوتا۔ اگر یہ سیاست چمکائے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا، اگر یہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہوتا تو بہتر نا ہوتا۔
ان غریبوں کا کیا قصور تھا جنہوں نے ساری عمر لگا کر کوئی روزگار کا وسیلہ بنایا اور آپ نے ایک ہی پل میں اسے تباہ و برباد کر دیا، اب اس کا نقصان کون پورا کرے گا۔ اس کیلے والے کا کیا قصور تھا جسے ان حالات میں بھی ماں نے بھیجا تھا اور کہا تھا بیٹا راشن لے کے کر آنا، گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس مزدور کا کیا قصور تھا جو روز دیہاڑییوں پر کام کرتا ہے اور اگر ایک دن کام نہ ملے تو اس کے گھر چولہا نہیں جلتا۔ اس ماں کا کیا قصور تھا جس کا بیٹا اس آگ کا شکار ہو جاتا ہے، اس ملک کا کیا قصور تھا جس نے ہمیں اپنی گود میں پناہ دی ہوئی ہے، ان رکشوں، ان بسوں، ان موٹرسائیکلوں، ان ٹائروں، ان درختوں، ان سبزیوں، ان پھلوں کا کیا قصور تھا جنہیں نذر آتش کیا گیا۔
کیا اب بھی ہم نہیں مانتے کہ ہم حد سے زیادہ انتہاپسند نہیں ہیں، کیا ہم میں سے کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی، کیا ہم میں سے کسی نے قانون کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ جاننے ہی کی کوشش کی کہ اللہ ہم سے کیا کہتا ہے اور اسے ماننے کی کوشش کی۔
دنیا کے ہر خطے میں مسلے مسائل ہوتے ہیں، فیصلے ہوتے جو نامنظور ہوتے ہیں اور ان کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کوئی بھی مسئلہ ہو آپ نے باہر نکل کر ملک کو ہی تباہ کرنا ہے، غریب کو ہی لوٹنا ہے، اپنے بھائیوں کو اذیت ہی دینی ہے۔ ہر جگہ مظاہرے ہوتے ہیں مگر وہ انسانیت کو یوں سرے عام روندتے نہیں ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انہیں پرامن طریقے سے قانون اور انسانیت کی حدود کے اندر رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ توڑ پھوڑ کیے بغیر اور دوسروں کو تکلیف دئیے بغیر بھی بات منوائی جاسکتی ہے۔ ہم کیوں ہر بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں، ہم کیوں ہر بات پر ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیتے ہیں، ہم کیوں دوسروں کو تکلیف دیئے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم ایک غلط فیصلے کو صحیح کرنے کے لیے کئی غلط قدم اٹھاتے ہیں، ہم کوئی بھی کام درست طریقے سے کیوں نہیں کر سکتے ہیں، ہم کس سمت جا رہے ہیں، ہم کس ڈگر پر چل پڑے، کیا جن کو ماننے کے ہم دعوے کرتے ہیں ان کی مان بھی رہے ہیں یا بس زبان سے ہی دعوے کرتے ہیں، کیا ہمیں اس پر تھوڑی دیر سوچنا نہیں چاہئے۔ ہمارے مذہبی لیڈر ہوں یا سیاسی لیڈر سب کے پاس ایک ہی طریقہ ہے بات منانے کا اور وہ ہے توڑ پھوڑ کا اور اس میں نقصان صرف اور صرف غریب عوام کا ہوتا ہے یا ملک کا۔ ۔ ۔ بس اللہ ہمیں معاف کرے۔
دیکھ ذرا تیرے عشق کی انتہا یہ کیسے چاہتے ہیں
سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں اور اذیت دیتے ہیں
زبان سے تیرے نام کے نعرے لگاتے ہیں
اور ہاتھ سے تیرے ہی لوگوں پر ڈنڈے اٹھاتےہیں
خود کو تیرے پیغمبر کا عاشق کہتے ہیں
مگر مانتے انکی ایک نہیں ہیں، یہ کیسا عشق ہوا
جو لڑتے رہے ساری عمر انسانیت کےلیے
آج انہی کے نام کے سہارے روندا جارہا انسانیت کو
جن کا دین ایمان تھا صرف اور صرف انسانیت
انہی کے ماننے والے مانتے نہیں بات ان کی
(آس)