1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. خوف

خوف

اک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر

پتے لرز رہے تھے ہوا کے بغیر بھی

کتنے مضبوط چہروں کے پیچھے کتنے نازک لوگ ہوا کرتے ہیں، پتھر دکھنے والوں کے دل کس قدر معصوم ہوتے ہیں یہ کون جانے۔ وہ معصوم سا ڈرا ہوا سہما ہوا بچہ ہر ایک کے اندر موجود ہوتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ کچھ اسکو ہروقت ساتھ لیے پھرتے ہیں جس وجہ سے وہ بچہ ڈر اور خوف کا شکار ہو کر رونا شروع کر دیتا ہے اور اس کا مالک اس سے پریشان ہو کر واویلا کرنا شروع کر دیتا ہے اور اب ان کو ہر پل خوف زدہ کرتا ہے وہ ہر لمحہ دنیا سے ڈرتا رہتا ہے اور کچھ کر نہیں پاتے۔

اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے بے خوفی کا نقاب اوڑھ رکھا ہوا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ان کے اندر یہ معصوم ڈرا ہوا بچہ نہیں ہے بلکہ ہو سکتا ہے وہ انہیں بہت ڈراتا ہو مگر وہ اسے ہر جگہ اٹھائے نہیں پھرتے، وہ ہر بار اسکے واویلے کرنے پر اسے تھپکی دے کر چپ کرا دیتے ہیں اور یہی ہوتے ہیں اصلی لوگ، جو دنیا میں جینا سیکھ جاتے ہیں، اپنی ذات کے وقار اور بقا کے ساتھ،

خوف سے آزاد انسان ابھی تک نہیں جنما ہے۔ ہم سب خوف کی کسی نہ کسی شکل کے حصار میں ہوتے ہی ہیں، یہ خوف کبھی باہری دنیا کا ہوتا ہے اور کبھی خود ہمارے اندرون کا پیدا کیا ہوا، اور خوف سے زیادہ کچھ خطرناک نہیں، کئی بار ناکامی کی وجہ صرف اور صرف خوف ہوتا ہے، آگے بڑھنےکا خوف، کچھ کرنے کا خوف، حالات کا خوف، زمانے کا خوف، ماضی کا خوف، مستقبل کا خوف اور خود اپنا خوف یہ سب خوف انسان کو صبح شام پریشان کرتے رہتے ہیں، اور کی راتوں کی نیند چھین لیتے ہیں، دن کا چھین برباد کر دیتے ہیں، یہ سب خوف انسان کو کچھ کرنے نہیں دیتے اسے کسی قابل نہیں چھوڑتے۔ انسان خوف سے نجات تو چاہتا ہے مگر اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اس سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش میں اسے اپنے اور قریب کر لیتا ہے، اب ایسا بھی نہیں ہے کہ خوف سے نجات ممکن نہیں ہے۔ بڑے بڑے جوان مرد ہیں جو خوف کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور اس سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جان چھڑا لیتے ہیں اور یہی وہ لوگ جو زمین اور آسمان میں سرخرو ہیں اور ساری کائنات ان کے گیت گاتی ہے۔ خوف سے نجات کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے خوف کا سامنا کرنا، اس کا مقابلہ کرنا، اس کا مقابلہ کیے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔

لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ ہر کوئی یہاں ڈرا ہوا ہے ایک دوسرے سے، مگر ڈرانے کے عمل سے باز نہیں آتا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں اور اس دوسرے سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدام کرتے ہیں مگر اس سب کے باوجود ہم دوسروں کو خوف ذرہ کرنے کے عمل سے باز نہیں آتے، شاید جب ہم ڈرا رہے ہوتے ہیں تو دراصل ڈر رہے ہوتے (واصف علی واصف)۔

اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مر مر کر جیا جاتا ہے، ہم ہر روز جینے کے لئے ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور افسوس کہ کوئی بھی اس عمل سے باز نہیں آتا ہے۔ ہم ایک گھٹے ہوئے معاشرے کی پیداوار ہیں، جہاں روز ہمارا دم گھٹتا ہے، اور کہیں سے ہوا کا کوئی سراخ نہیں ملتا۔ اب ہم اس ماحول کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں اگر کوئی سراخ دکھائی بھی دے تو ہم اس کو بند کرنے لگ جاتے ہیں اور اس اندھیرے میں ہم بھاگ رہے ہیں اور بس بھاگ رہے ہیں، اور ایک دوسرے یہ آگے نقل جانے کے لئے ایک دوسرے کو ٹکریں مار رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی کامیاب ہے جو دوسروں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔