آجکل ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کیسے کسی نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ نوکری نہ ملنے کے باعث اب بریانی کا سٹال لگا رہا ہے۔۔ یا اس نے کوئی اور کام شروع کر دیا ہے جیسا کہ رکشہ چلانا یا ٹیکسی چلانا۔۔ اب تو ہمیں لڑکیاں بھی ملتی ہیں جو دکان چلا رہی ہیں۔۔ گول گپے کا سٹال لگا رہی ہیں۔۔ یہ سب دیکھتے ہی کچھ لوگ لعن طعن شروع کر دیتے ہیں کہ بیڑا ہی غرق ہو گیا۔۔ اتنا پڑھنے کا کیا فائدہ ہے جب سڑکوں پر نکل کر کام کرنا ہے۔۔ مجھے تو ان سب بہت فخر ہے جو اچھا کام کر رہے ہیں، کام کرنے کے کلچر کو پروموٹ کر رہے۔۔
اب یہاں کچھ چیزیں ہمیں سمجھنے کی شدت سے ضرورت ہے۔ پہلی چیز تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہی کرنا نہیں ہے، تعلیم آپ کو شعور دیتی ہے۔ آپ کو اچھا انسان بناتی ہے، زندگی کے طور طریقے سکھاتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو ہمیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔۔ اور اس کے لیے آواز اٹھانے اور بولنے کی ضرورت ہے۔۔ اور اگر آپ کہیں کہ ڈگری کی کیا ضرورت ہے تو بہت سے کام ایسے ہیں جو ڈگری کے بغیر ممکن نہیں اور اگر آج آپ کے ڈگری کام نہیں آ رہی تو کل آ جائے گی۔۔
ہمیں بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکالنے کی بجائے، تعلیمی نظام کو بہتر بنانے پر زور دینا چاہیے۔۔ تعلیم کے بغیر معاشرہ فلاح نہیں پا سکتا۔۔ پھر سبھی ایک ہی کام نہیں کر سکتے۔۔ کچھ کو اپنا کاروبار کرنا ہے، کچھ کو ڈاکٹر، سائنسدان اور انجینئر بننا ہے تو کچھ نوکری بھی کرنی ہے۔۔ کچھ کو آن لائن کام کرنا تو کچھ کو زراعت کو اپنا ہے۔۔ جو بھی کریں عزت سے کریں اور اس کو ذرا سا ٹیکنالوجی کا ٹچ دے دیں۔۔ اب سادہ سی بات ہے اگر آپ اپنے سٹال پر انگریزی کے چند جملے اور ڈگری ہونے کی تشہیر کر دو تو آپ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاو گے کچھ دیر کے لیے۔۔
اور کاروبار میں ہم نے یہی تو کرنا ہوتا ہے۔۔ لوگوں کی توجہ ہی چاہیے ہوتی جسے لوگ مارکیٹنگ کہتے۔۔ اور اگر آپ کا مال یعنی پروڈکٹ اچھا ہے اور لوگوں کو پسند آ گیا ہے تو پھر وہ توجہ کہیں نہیں جانے والی۔۔ کام چلنا چاہنا۔۔
دوسرا ہمیں افسوس کرنے کی بجائے سپورٹ کرنا چاہیے۔۔ گھر میں بیٹھنے اور معمولی سی تنخواہ پر کڑھنے اور افسردہ ہونے سے بہت بہتر ہے کہ آپ کوئی کام کر لو چاہے وہ سٹال لگانا ہو، ریڑھی لگانا ہو، ٹیکسی چلانا ہو، چاہے کچھ بھی کرنا ہو۔۔ وہ تمام کام انتہائی عزت کے لائق ہیں جہاں آپ حق حلال سے زرق کما رہے ہو۔۔ اور ہم پر فرض ہے کہ ہم ہر کام کرنے والے کی عزت کریں اور اگر ہم فرق کرتے ہیں تو ہماری اپنی سوچ چھوٹی ہے۔۔ یہ جو ہم نے تقسیم کر رکھی ہے نہ یہ کام اچھا ہے اور یہ نہیں۔۔ اس کی وجہ سے ہم روتے رہیں گے کہ یہ ہوگیا وہ ہو گیا مگر باہر نکل کر کوئی کوشش نہیں کریں گے۔۔ کیونکہ ہمیں شرم آتی ہے۔۔ ایسی شرم اور ایسے بھرم کا کیا فائدہ جس نے آپکی زندگی مشکل میں ڈال رکھی ہو۔۔ جس سے نہ آپ کا بھلا ہو رہا ہو اور نہ کسی اور کا۔۔
کل ہی ایک ڈرائی فروٹ بیچنے والے بھائی سے بات ہو رہی ہے تھی کہ کتنا کما لیتے ہیں۔۔ وہ پشاور سے اپنا سامان لاتے اور یہاں گجرات میں بیچتے ہیں۔ ان کے بقول مہینے کا پچاس ساٹھ ہزار ہو جاتا ہے۔۔ ان کی گاڑی ایک جگہ سڑک کے کنارے کھڑی رہتی ہے۔۔ لوگ آ کر اپنا سامان خرید کر لے جاتے۔۔ اور ابھی یہ سامان raw فارم میں تھا۔۔ اگر آپ کے پاس تعلیم ہے تو آپ اسے پیکنگ اور برانڈنگ کے ساتھ اور بہترین طریقے سے سیل کر سکتے۔۔ اب یہاں بہت سے گریجویٹس پچاس ہزار سے بہت کم سیلڑی پر کام کرتے ہیں اور انہیں کام کرتے ہوئے شاید کچھ سال بھی ہو گئے ہیں۔۔
بہت بہت ضروری ہے کہ ہم ہر کام کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور کام کرنے والے کی عزت کریں۔۔ اور کام کرنے کے کلچر کو عام کریں۔۔ پھر چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا، کام کی تلقین کریں۔۔ اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کریں۔۔
ہم یہاں جو غلطی کرتے ہیں کہ جس کا رواج ہوتا ہے سب اسی طرح دوڑ پڑتے ہیں اور اسکے چکر میں ایک ہی طرف سب بھیڑ اکٹھی ہو جاتی۔۔ یہاں مارکیٹ اور حالات کو سمجھنے ضرورت ہے اور آپ کو زندگی سے چاہیے کیا اور کتنا۔۔ پھر آپ کو اسی حساب سے محنت کرنی پڑے گی۔۔ کام کرنا پڑے گا اور پڑھائی بھی۔۔ اسی کا نام زندگی ہے۔۔ بھیڑ سے دور رہیں اور اپنی زِندگی بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔۔
پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سب کو دوسروں کو کنٹرول کرنا ہے۔۔ انہیں اپنے نیچے لگانا ہے۔۔ ایک دوسرے کو نیچے لگانے کے چکر میں سب صرف اپنا بیڑا غرق کرتے ہیں۔۔ وہ چاہے ماں باپ ہوں، بہن بھائی ہوں، میاں بیوی ہوں، ایک ساتھ کام کرنے والے ہوں۔ استاد ہو یا منٹور۔۔ اور اگر آپ موو آن یا اپنی مرضی سے کچھ الگ یا نیا کرنا چاہو تو تمہیں سپورٹ کرنے کی بجائے ناراض ہو جائیں گے اور منہ موڑ لیں۔۔ اس کنٹرول نے بے شمار لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ڈال رکھی ہیں۔۔ اس کنٹرول کلچر کو چھوڑیں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنائیں۔۔ خود کو قابل بنائیں۔۔ بھیڑ سے بچیں۔۔ جھوٹی عزت اور شان و شوکت کے چکر سے نکلیں۔۔
کام کرنے کے کلچر کو پروموٹ کریں۔۔ پڑھے لکھیں، کام کریں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنائیں اور آگے بڑھیں۔۔ نہ تو کوئی کام بڑا ہے اور نہ کوئی کام چھوٹا، اسے سمجھیں اور فالو کریں۔۔ سب کی عزت کریں اور عزت کمائیں۔۔ پھر چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا، کام کی تلقین کریں۔۔ اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کریں۔۔ اور خاص طور پر باہر کام کرنے والی بیٹیوں کی عزت کیا کریں وہ چاہے موٹرسائیکل چلا رہی ہو یا رکشہ۔۔ آفس جا رہی ہو یا ریڑھی لگا رہی ہو۔۔ بہت ساری بیٹیوں اپنے گھر کی سرپرست ہوتی ہیں۔۔ جنہیں گھر کا چولہا جلانے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو سپورٹ بھی کرنا ہے۔۔
دوسروں کی خود داری کی قدر کریں۔۔ اور سب مل کر آگے بڑھیں۔۔ نہ کسی کو خدا بنائیں اور نہ بننے دیں۔۔ سب کو برابر کی عزت دیں اور ہر کام کو اچھا سمجھیں جس سے لوگ رزق کما رہے ہیں۔۔ پھر دیکھیں یہ معاشرہ خود بخود بہتر ہو جائے گا۔۔