1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. کمپیوٹر اور استاد کا کیا مقابلہ

کمپیوٹر اور استاد کا کیا مقابلہ

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دور سب سے تیز رفتار اور ترقی یافتہ دور ہے اور یہ ساری ترقی ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے اور یہاں کمپیوٹر کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ جہاں پہلے کسی معلومات کیلئے کئی کتابوں کو کھوجنا پڑتا تھا اب وہیں ایک کلک پر ساری معلومات آپ کے سامنے جن کی طرح حاضر ہو جاتی ہے اور آپ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ہر شعبے سے وابستہ لوگوں کیلئے تجربہ کار افراد کی رہنمائی صرف سرچ کے ایک کلک پر موجود ہے۔ سوشل میڈیا رابطے کا آسان اور سستا ذریعہ ہے، آپ جہاں اور جس جگہ بھی ہوں وہیں سے میلوں دور بیٹھے افراد سے نہ صرف بات کر سکتے بلکہ انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں اور جب چاہیں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کریں گویا کہ فاصلے سمٹ گئے ہیں اور دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ اب آپ کے لیے کسی بھی چیز تک رسائی حاصل کرنا قطعا مشکل نہیں رہا ہے مگر اس سب کے باوجود کمپیوٹر استاد کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ہے۔ بےشک آپ کو کمپیوٹر کی مدد سے ہر طرح کی معلومات تو ایک کلک پر میسر ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ معلومات صحیح اور درست بھی ہوں۔ کمپیوٹر ہمیں معلومات کو دے سکتا ہے مگر صحیح اور غلط کی تمیز نہیں سکھا سکتا ہے جو استاد ہمیں سکھاتا ہے۔ کمپیوٹر انسان کو ذہین تو بنا سکتا ہے مگر اس کی تربیت نہیں کرسکتا ہے۔ گویا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے کمپیوٹر کتنی ہی جدت اختیار کیوں نہ کر لے مگر استاد کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہےکیونکہ استاد آپ کو اپنے تجربات اور مشاہدات سے سکھاتا ہے جبکہ کمپیوٹر کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے جہاں وہ اچھائی برائی کی پرکھ کر سکے۔ استاد آپ کو ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے جبکہ کمپیوٹر صرف سکرین دکھا سکتا ہے اور کمپیوٹر تو بجلی اور انٹرنیٹ کا محتاج ہے۔ استاد آپ کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے شاید ہی ماں باپ کے علاوہ کوئی ذات آپ کی ذات پر اتنا اثر رکھتی ہے جتنا استاد رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے استاد کی طرح بننے کی کوشش کرتے تھے، ہم ان کے جیسا دکھنا چاہتے تھے۔ استاد کا کردار ہمیشہ سے آپ کی زندگی کا اہم جزو ہوتا ہے اور یہ کردار آپ کی ذات سے جھلکتا بھی ہے کیونکہ استاد ہمیں صرف پڑھاتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ہماری ذات کی تشکیل بھی کر رہے ہوتے ہیں اسی لیے تو استاد کا مقام بہت بلند ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ، ٹیچنگ کے شبعے میں جتنا ظلم اب ہو رہا ہے شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو۔ ۔ ہمارا استاد کورس، بچوں کے بھرمار اور مہنگائی میں پس رہا ہے بچہ نمبروں کے پیچھے بھاگ رہا ہے اس دوڑ میں نہ کوئی کچھ سکھا پا رہا ہے اور نہ کوئی سیکھنا چاہتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں استاد سے زیادہ کسی شخص کا پروٹوکول نہیں ہے اور ہمارے ملک میں استاد پستی کے انتہائی درجے پر ہے اسی لیے تو یہاں کوئی اپنی مرضی سے استاد نہیں بننا چاہتا ہے جس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا وہ اس شعبے کی طرف آ جاتا ہے اور صد افسوس کہ ہمیں ہمارے ٹیچر سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ کبھی استاد نہ بننا بڑی ذلالت ہے۔ یہاں یہی وجہ ہے کہ یہاں ایک مفلوج قوم پیدا ہو رہی ہے کیونکہ یہ قوم استاد کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہی ہے جبکہ استاد ہی وہ ذات ہے جو پوری قوم کو بناتا ہے اور اسے تشکیل کرتا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ میڑک تک ہم سوال سے بھاگتے ہو اور اگر کبھی کر دو تو سب آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے کوئی پاگل ہو اور پھر زندگی ہمیں ٹھوکریں مار کر سب سکھاتی ہے۔ جب تک ہم استاد کے وقار کو معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے بلند نہیں کرتے ہم یونہی پستے رہیں گے کیونکہ استاد ایک ایسی نعمت ہے جسکا کوئی نعمت البدل نہیں ہے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔