زمین نا آسمان
وقت نا تاریخ،
ڈئیر ہم نفس!
کام سے تھکا ہارا آیا بیٹھا تھا کہ کہیں سے تمہاری یاد نے مجھے گھیر لیا بلکل ایسے ہی جیسے شکاری شکار کو گھات لگائے بیٹھا ہو۔ خیر سناؤ کیسی طبیعت ہے، سنا ہے آجکل کافی مصروف رہتے ہو۔ کوئی خیر خبر ہی نہیں مل رہی تمہاری۔ ہاں مصروفیت تو اچھی چیز ہے مگر ایسا بھی کیا کہ خود سے بات کرنے کی بھی فرصت نہ ملے۔ دسمبر آ گیا ہے، شاعر جنم لے رہے ہیں۔ ہر دل اداس ہے کسی کی تلاش میں گمشدہ ہے۔ زرد پتوں کی بہار ہے۔ سرد ہواؤں کی لہر ہے۔ کل جب تم سو رہے تھے تو مائی زبیدہ آئی تھی اداس تھی بیچاری۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگی کئی دنوں سے موم پھلیاں لے کر رکھیں ہیں مگر کوئی آ ہی نہیں رہا کھانے سب بہت مصروف ہیں۔ یہ سن کر میں بھی اداس ہو گیا۔
ویسے تم بھی بہت مصروف ہو گئے ہو مجھ سے بات بھی نہیں کرتے ہو آجکل۔ پہلے تو ہر بات سے پہلے، ہر کام سے پہلے مجھ سے مشورہ کرتے تھے اور آجکل جانے کن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہے ہو کہ خود سے بات کرنا کا بھی وقت نہیں۔ پہلے تو جب کبھی مجھے شیشے میں دیکھتے تھے تو سو سو بار قربان جاتے تھے مگر اب یاد بھی ہے آخری بار آنکھ اٹھا کر دیکھا کب تھا۔ سنا ہے پیچھلے ہفتے بیمار رہے ہو، جانتے بھی ہو ٹھنڈ کافی بڑھ گئی ہے پھر بھی خیال نہیں کرتے، اپنا خیال رکھا کرو۔ مجھے بھی ستاتے ہو۔۔ تمہاری لاپروائیاں مجھے لے ڈوبتی ہیں۔۔ تمہیں پریشان دیکھنا آسان نہیں ہوتا نہ میرے لیے۔
پتا چلا ہے آج کل کچھ اداس رہتے ہو، خیر تو ہے تمہیں بھی کہیں اس کی یاد تو نہیں ستا رہی عجیب بات ہے نہ وہ نہ ہوتے ہوئے بھی تمہارے اعصاب پر سوار ہے اور میں تم میں رہتے ہوئے بھی تم سے جدا ہوں۔ خیر اس کا کوئی پتا چلا، میں نے تو سنا ہے آجکل وہ بھی تمہاری طرح خود کو ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن سنو کتنی عجیب بات ہے نہ تمہارا ہم نفس تمہارے پاس بیٹھا چیخ رہا ہے مگر تم کو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ تم اسے اپنے اندر ڈھونڈنے کی بجائے، ساری دنیا میں ڈھونڈ رہے ہو۔ میں لاکھ چلاتا رہا مگر تم نے میری ایک بات نہیں سنی، سنی تو اس نے بھی نہیں خیر میں نے بھی اب طے کیا ہے تم دونوں کو اب بھاگنے دوں اور دیکھوں کہ کتنا بھاگ سکتے ہو۔ آخر کو تو لوٹ کر میرے پاس ہی آنا ہے پھر پوچھوں گا سناؤ کیسی گزری۔ بس اس بات کا اکثر ڈر ستاتا ہے کہیں اس تلاش میں تم لوگ اتنی دور نہ چلے جاؤ کہ مجھے ہی کھو بیٹھو۔۔۔ سنو میں جو ایک بار کھو گیا تو بہت مشکل ہو جائے گا پھر ملنا۔ بھاگو ضرور بھاگو میں نے کب منع کیا ہے مگر ذرا سنبھل کر بھاگو۔ آسمان پر اڑنے کی خواہش رکھو کس نے روکا ہے مگر خیال رہے زمین نہ چھوٹنے پائے۔
کہنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے مگر وقت کی قلت کے باعث ابھی بات یہیں موقوف کرنا پڑے گی مگر اس امید اور آس کے ساتھ کہ تم سے پھر ملاقات ہو گی۔ امید ہے تم اس بار میرا خط، بورنگ لیکچر سمجھ کر ہر بار کی طرح کچرا دان میں پھینکو گے نہیں اور پورا پڑھو گے چلو آدھا ہی پڑھ لینا۔ کاش ہماری قسمت بھی مہربان ہو جائے اور تمہاری طرف سے کوئی خط ہماری طرف بھی آئے۔ خیر جب تک سانس ہے تب تک آس ہے۔ آخر میں میری طرف سے ڈھیروں دعائیں اور سلام اور اس کی یاد میں رہنا اب چھوڑ دو وہ اب لوٹ کر نہیں آنے والا۔
تمہارا ہم نوا،
ہم نفس