1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. کب تک مارو گے

کب تک مارو گے

عوام میں اور میڈیا پر عجب سی بےچینی ہے، لوگوں میں اشتعال انگیزی بڑھ رہی ہے، سوشل میڈیا پر تو خاص طور پر ایک الگ قسم کی آگ بھڑک رہی ہے جو جنگ چاہتی ہے۔

جنت نظیر وادی کشمیر نے بھی کیا قسمت پائی ہے جہاں قدرت خود بستی ہے مگر ہولی ہے دیکھو کھیلی جا رہی، رنگوں کی نہیں خون کی۔ جہاں آئے دن قتل و غارت معمول ہے جہاں سے انسانیت گر گزرے تو شرم سے سر جھکا لے مگر دنیا کے محافظوں نے جانے کیوں آنکھیں بند کر دی ہیں جنہیں ہر معاملے میں انسانیت سوجھتی ہے مگر کشمیر اور مسلمانوں کی دفعہ جانے کیا ہو جاتا ہے کہ نیند سے آنکھ ہی نہیں کھلتی۔ بھارت جو خود کو انسانیت کا علمبردار سمجھتا ہے کشمیر کے معاملے میں اسکی انسانیت کہاں چلی جاتی ہے جب نہتے کشمیریوں کو سرعام موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ اب جب بھارت نے دیکھا کہ پاکستان اس معاملے میں سنجیدہ ہے اور اس مسئلے کو سچ میں حل کرنا چاہتا ہے تو اس نے آرٹیکل 35A کا ڈرامہ رچا لیا کہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا مگر دنیا کو قانون سکھانے والے خود یہ کیسے بھول گئے کہ قانون کے ساتھ مذاق تو وہ خود کر رہے ہیں۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کرنے سے آزادی کی جنگ ختم ہو جائے گی تو یہ غلط فہمی ہے۔ ایسی کاوشوں سے یہ تحریک اور زور پکڑے گی حتی کہ سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پھر بھارت کے پاس بھی کچھ نہیں بچے گا۔ بھارت کس قوم سے مقابلہ چاہتا جو پیدا ہی مرنے کےلیے ہوتے ہیں۔ کشمیر ایک الگ ریاست تھی جس کے متعلق اقوام متحدہ میں دونوں ممالک نے کہا تھا کہ وہاں کی عوام جس سے مرضی چاہے الحاق کرے تو اب امن کے رکھوالوں کو قانون کی یہ خلاف ورزی کیوں دکھائی نہیں دیتی، اگر معاملے میں سنجیدگی سے کام نہ لیا گیا ہو تو خطرناک نتائج سے دینا کو کوئی نہیں بچا سکتا۔

بھارت کیوں جنگ پر اکسا رہا ہے کیا وہ اس قوم سے واقف نہیں کہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور اگر پاکستان چاہتا ہے کہ امن و سلامتی سے معاملہ نبھا لیا جائے تو اسے پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے کیونکہ ہم میں انسانیت ابھی باقی ہے ہمیں انسانوں کی پروا ہے جو ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں ہتھیاروں کے جنگ و جہاد سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ دنیا تباہ ہو گی اور کسی کے بھی ہاتھ کچھ نہیں آئے گا سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور ہم تو اس مذہب سے ہیں جو جنگ کے بھی اصول مقرر کرتا ہے، بےگناہوں پر حرف نہ آئے بچوں عورتوں اور ضعیفوں پر ہاتھ نہ اٹھے۔ جہاد کرنا ہے نہ تو چلئیے کرتے ہیں ہتھیاروں سے کیوں مارتے ہو، کرداروں سے مارتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت جیسی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ ہونے سے دونوں کے ہاتھوں میں کچھ نہیں آئے گا اور ساری دنیا اس کا خمیازہ پورا کرے گی۔ پہلے ہی ہماری فضا میں اس پہلے ایٹمی دھماکے کے اثرات موجود ہیں جو جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیا گیا تھا آج تک ادھر زمین سے کوئی قدرتی چیز نہیں اگتی ہے زمیں بنجر ہے یوں سمجھیں کہ زندگی ناپید ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری ہوا بھی pure نہیں رہی اس میں cesium-36 کے traces آج تک موجود ہیں تو سوچیئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ کتنی تباہی مچائے گی جب دونوں جانب سے بم چلیں گے، دونوں میں سے کوئی بھی ہاتھ باندھ کر تھوڑی بیٹھے گا۔

مخالف تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ہم کوئی غلط قدم اٹھائیں اور اسے کوئی موقع ملے سہی ساری دنیا میں ہمیں رسوا کرنے کا آپ کشمیر کی بات کرتے ہو بھارتی سیاستدانوں کو اگر اپنی سیاست بچانے کےلیے پورے بھارت کو داو پر لگانا پڑا تو وہ گریز نہیں کریں گے۔

ہمیں مخالف کو شکست دینی ہے نہ اسے سبق سیکھانا ہے تو کیا ضروری ہے اس ٹیکنالوجی اور ماڈرن دور میں بھی ہتھیار ہی اٹھائیں جائے اور خون ہی بہایا جائے، دماغ سے بھی تو یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے مخالف کو مفلوج کرکے اس سے تمام تر تعلقات کا بائیکاٹ کرکے۔ اگر مخالف سے اتنی نفرت ہے تو مخالف کی ہر چیز سے نفرت کی جائے نہ اسکا بائیکاٹ کیا جائے پھر اسکے ڈرامے اور گانے بھی نہیں دیکھے اور سنے جاتے خود پر بھی جبر کیجئے نہ یہ بھی تو جہاد ہی ہوگا نفس کا پر انسانیت سے نفرت کیسی۔

ہمیں ان حالات کا مقابلہ حوصلے سے کرنا ہے اور خود کو ان اشتغال انگریز سرگرمیوں کا حصہ نہیں بننے دینا ہم ایک جذباتی قوم ہیں مگر اسلام میں جذبات کے ساتھ ساتھ عقل کو بھی بھرپور اہمیت حاصل ہے جہاں فیصلے جذبات کی بجائے حقائق کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔