1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. کچھ ہلکا پھلکا

کچھ ہلکا پھلکا

باقی دوست رائٹرز کی کہانیاں رسالوں اور میگزین میں چھپتا دیکھ کر دل کرتا کہ ہم بھی لکھتے ہیں مگر وہی زمانے کی الجھنے۔۔۔

آجکل فراغت ملی تو دماغ بھی سوچنے لگا بس تو پھر کہا ہم نے بھی کہانی لکھنے کا فیصلہ کیا۔۔ دو چار لکھیں بھی مگر ایڈیٹر صاحب نے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں۔۔۔ کہتے ہیں خیالات بہت پرانے ہیں۔۔۔۔ نئے بچوں کو fascinate نہیں کرتی ایسی بڈھے خیالات۔۔۔۔۔۔ انہیں کچھ مصالحے دار چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی خوشگوار اختتام ہو۔۔۔۔۔۔ اب کیا کیجئے نہیں ہوتی ہماری کہانی میں happy ending۔۔۔۔ نہیں توڑے جاتے ہم سے بیٹھے بیٹھائے چاند تارے۔۔۔ انتی محنت کرنے کی ضرورت ہی آخر کیا ہے۔۔۔۔۔ اور نہ ہی ہمیں کوئی چھ فٹ لمبا چوڑا امیر باپ کا چشم و چراغ ملتا کہ پڑھ کر اگلا کہے اف اف

اور نہ ہی صحن سے وارد ہوتیں کھنکتی رنگ برنگی چوڑیاں، لہراتا آنچل اور نہ ہی گورا چٹا مشرقی شرمیلا مکھڑا ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کیا کیجئے۔۔۔۔ جانتے ہیں اکیسویں صدی ہے پر اس بڈھی سوچ کا کیا کیجئے جو بابا آدم کے زمانے کی رکھتے ہیں۔۔۔۔ اب بھئی نہیں سمجھ آتی ہمیں یہ ماڈرن فون کال والی محبت جس میں اگلے کو یہ تک نہیں پتہ کہ باجی محبوبہ اصل میں جی کس عالم میں رہی ہے، کیوٹ، گارجیس دکھنے والی فلٹر کے پیچھے ماسی بھی دکھتی۔۔۔۔۔ جو روتی ہے تو گھر والے ڈائن کہتے۔۔۔ اور گر ہنستی ہے تو اماں بھاگڑ بلی۔۔۔۔۔ اور وہ باجی بیچاری بھی سچ جانتے ہوتے اس پر یقین کر لیتی۔۔۔۔ کیا کیجیے دل تو بچہ ہے نہ جی اور تھوڑا تھوڑا بےوقوف بھی۔۔۔۔۔ اب ہمیں گھر والے بھی ایسے ملتے کہ بھولے سے ہی کبھی تعریف کر دیں۔۔۔ کچھ اچھے بول بول دیں تاکہ دل میں اچھا سننے کی خواہش اتنی نہ بڑھے کہ باہر کے لوگوں سے تعریفیں سننے لگ جائیں اور ان پر اعتقاد بھی بڑھ جائے۔۔۔۔۔۔ بات سنجیدہ ہی ہو گی۔۔ جی بھئی کہہ رہے تھے کہ ہم سے نہیں یہ تعریفوں کے پل بندھتے۔۔۔۔ ہمیں تو سچ میں کسی کی تعریف کرنا پڑ جائے تو گھنٹوں غش پڑھ جاتے۔۔۔۔۔ اوپر سے ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں۔۔۔ کہانی میں ترمیم کیجئے۔۔۔ جناب کیسے کیجئے۔۔۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ٹریفک میں گھنٹوں دھکے کھاتا آدمی کیسے سپر مین کی طرح پہنچ کا دو سیکنڈ میں دوشیزہ کو گرنے سے بچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ بھئی، بہن کو ہسپتال اکیلے ہی جانا ہی پڑنا، مان لیجیے نہ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس ماڈرن اور اکیسویں صدی میں یہ آپ جناب، اسی تسی، وہ جی یہ جی، سنیے جی کہاں ہوتا ہے۔۔۔ ہم تو کہتے ہیں چھوڑیئے جی یہ سب آگے بڑھتے ہیں، کچھ نیا کرتے ہیں۔۔۔ دیکھیں سیدھی سی بات کہ نہ ہی ہم سے منٹوں میں امپائر کھڑے ہوتے۔۔۔

جو دوشیزہ سے ایک ملاقات کیلئے کروڑوں عربوں کی ڈیل ایسے ٹھکراتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔۔۔ یہاں اصل زندگی میں کوئی اپنی روٹی کا نوالہ بھی یوں نہیں دیتا کسی کو۔۔۔۔۔۔۔ جناب ہمارے ابا نے سالوں چوبیس گھنٹے ایک کر کیسے گھر بنایا تھا، ہم نے دیکھا ہے۔۔۔ اور کہاں ملتا ہے ہر بار ناراض ہونے پر ڈائمنڈ کا سیٹ۔۔۔ جب سال میں ایک دو بار بازار کا چکر لگانا بھی وبال جان بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ جب ہم نے اماں کو گھر کےلیے روپے دو کا حساب رکھتے بھی دیکھا ہے۔۔۔۔ ہمارے اماں ابا لڑتے تھے، نہیں کہتے تھے صبح شام لو یو، سی یو۔۔۔ مس یو، مگر ذرا سے مسئلے پر دونوں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تھے۔۔۔ بھئی یہ بھی محبت ہی ہے۔۔۔۔۔ اب نہیں ملائے جاتے ہم سے محبت میں زمین آسمان کا قلابے کیا کیجئے۔۔۔۔ کہ باتوں میں قلعے پہ قلعہ فتح کر لو اور حقیقت میں ایک قدم بھی ساتھ چل نہ سکو۔۔۔۔ یہ بھی کوئی محبت ہوئی۔۔۔ بھئی پھینک دو ردی میں۔۔۔ ہم سے نہیں بنتی یہ کہانی۔۔ یہ نسل اٹریکشن کو محبت سمجھتی ہے۔۔۔ جسے فون پر نبھاتی ہے۔۔ چھپائے پھرتی ہے، چوری جو کرتی ہے۔۔۔ جذبات کے بہاؤ کو عشق کہتی ہے جو اماں کے جوتے اور زندگی کی ایک تھپڑے سے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔۔۔ واہ بھئی۔۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔