1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. ماضی کی گرہ

ماضی کی گرہ

میں نے آج پھر غصہ میں فیکے کو بہت کچھ سنا دیا وہ چپ چاپ بیچارا سنتا رہا جب برداشت ختم ہوئی تو روتا ہوا چلا گیا۔۔ وہ بہت حساس تھا۔۔۔ بابا جی نے مجھے غصہ کرتے دیکھ لیا۔۔ چپ چاپ آ کر چارپائی پر بیٹھ گئے۔۔۔

ان کی خاموشی سے میں ڈرتا تھا مگر سوال کی ہمت نہ تھی سو خاموشی سے جا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے پتر کتنی بار کہا ہے اتنا غصہ نہ کیا کر۔۔۔

بابا جی اللہ والے تھے نہ کسی سے کوئی لینا دینا بس اللہ اللہ کرتے رہتے۔۔۔۔ مجال جو میں نے کبھی ان کے منہ سے کبھی کوئی نفرت کی بات سنی ہمیشہ امن محبت کی بات کرتے تھے۔۔۔۔۔ بس اللہ نے اس نے ملایا تھا۔۔۔ ڈیرے پر آتے تو محفل لگ جاتی تھی۔۔ سب اپنی اپنی سنا رہے ہیں میں نے انہیں کبھی غصہ کرتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ مجھے غصہ بڑا آتا تھا اور وہ ہمیشہ مجھے اس سے بچنے کی ترغیب۔۔ وہ کہتے تھے یہ بندے کو اندر ہی اندر کھا جاتا ہے۔۔ اس سے جتنا بچا جائے بہتر ہے۔۔

اب میں انہیں کیا بتاتا مجھے تو غصہ وراثت میں ملا تھا۔۔ بچپن میں آنکھ کھولی تو دادا اور چاچا کی سب بڑی مانتے تھے۔۔۔ سب ان سے دب کر رہتے۔۔۔۔ چاچا ان دنوں نئے نئے مولوی بنے تھے بس وہ سب کو مذہب سکھانے لگ گئے جو نہیں سنتا تھا اسکی خیر نہ ہوتی۔۔ میں سب سے چھوٹا تھا باقی گھر والے تو انہیں اتنا سنجیدہ نہ لیتے مگر میں اور دادی۔۔۔۔ ہمیں وہ گھنٹوں بٹھائے رکھتے۔۔۔۔ اور مذہب سکھاتے رہتے۔۔۔۔ کبھی تو میں کھیل رہا ہوتا تو ایک آواز آتی عثمان، سب کچھ چھوڑ کر جوتے ہاتھ میں اٹھائے بھاگ کر جاتا، اندر داخل ہوتا تو وہ اشارہ کرتے کھڑے رہو اور خود ذکر میں مصروف ہو جاتے۔۔ میں چپ چاپ کھڑا ہو جاتا۔۔۔ کسی سوال جواب کی تو ہمت ہی نہ تھی۔۔۔ گھنٹے بعد ان کا ذکر ختم ہوتا تو وہ کہتے جاو۔۔۔۔ اور میں حیران پریشان واپس آ جاتا۔۔۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا۔۔۔ زبان تو بول نہیں سکتی تھی مگر ذہن وہ اب ہر بات ہر رویے کو جانچ رہا تھا۔۔۔ سمجھ رہا تھا۔۔۔ اندر ہی اندر دب رہا تھا۔۔۔۔۔ اس چیز نے مجھے بہت حساس بنا دیا۔۔۔۔۔ بس پھر ایک ایک عجیب سا دکھ میرے ساتھ سفر کرتا رہا یہ دکھ تب بھی تھا جب مجھے اسکے مفہوم تک کا ادراک نہ تھا۔۔۔ بچپن میں دوست احباب ہنستے تھے کہ تمہیں اس عمر میں کون سے روگ لگ گئے ہیں۔۔ انہوں کیسے بتاتا کہ میں اسے لے کر پیدا ہوا ہوں۔۔۔۔ بولنا تو کبھی آیا نہ تھا مگر آنکھیں سب دیکھتی رہتی تھی اور اسے دماغ میں نوٹ کر دیتیں جو بعد میں میرے دماغ میں ہلچل مچا دیتا۔۔۔ گھنٹوں ٹکٹکی باندھے کھڑکی سے نیچے لوگوں آتے جاتے دیکھتا رہتا اور سوچتا یہ کیا زندگی ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی ہنستے ہوئے جاتا تو کوئی روتے ہوئے۔۔۔۔ کئی لڑائیاں ہوتیں۔۔۔ کئی محفلیں بھی سجتیں۔۔۔ وہ بن لکھی تحریریں آج بھی ہلچل مچاتی ہیں۔۔۔۔ آج بھی کسی انجام کے بغیر چیخ رہی ہیں۔۔ ان سے چھٹکارا پانے کےلیے خود کو اس دنیا داری کے مصروف رکھتا ہوں مگر یہ سب وقتی ہوتا ہے۔۔۔ مگر یہ سب دیکھ کر وقت کے ساتھ مزاہمت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔۔ اور کچھ ہوا یا نہیں مگر ایک خول ضرور چڑھا لیا خود پر۔۔۔

بس مجھے گر سمجھ آ گیا۔۔۔ کسی سے بات منوانی ہے۔۔۔ کسی سے جان چھڑانی ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ تم پر غصہ کرے تم پہلے ہی ماتھے پر بل ڈالے بیٹھ جاو۔۔ رعب ڈال کر رکھو۔۔۔ سب بڑے ایسا ہی تو کرتے۔۔۔۔۔ تب مجھے اپنا آپ مضبوط کرنا تھا، اپنی ایک الگ شخصیت بنانی تھی۔۔ سب کو کچھ بن کر دکھانا تھا۔۔۔ ٹکریں مارتے رہے اور چھوٹی کامیابیاں ملتی رہیں۔۔۔ پھر وہ جو ہنستے تھے۔۔۔ وہ بھی تعریف کرنے لگے۔۔۔ مگر میری شخصیت میں وہ خلا جوں کا توں موجود رہا۔۔ جو کسی چیز نہیں کم ہوا بلکے وقت کے ساتھ بڑھ گیا ہے۔۔۔ اب تو وہ لوگ بدل گئے ہیں۔۔۔ وقت بدل گیا ہے۔۔۔ خدا بھی شاید انہیں معاف کر چکا ہے۔۔۔ مگر میرے اندر سے وہ تکلیف نہیں جاتی۔۔۔ جب تکلیف بڑھتی ہے تو اندر جنگ شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ ہر کوئی قصور وار لگتا ہے۔۔۔ تب ماں دیکھتی تھی مگر کچھ کہہ نہ پاتی۔۔۔ کہتی بھی تو سنتا کون تھا۔۔۔ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ماں پیاری تھی مگر کبھی کبھی وہ بھی مجھے مجرم لگنے لگتی۔۔۔ وقت نے کچھ حادثے ایسے دکھائے ہیں بچپن سے کہ کبھی اپنی کہانی پڑھنے کا تو وقت نہیں ملا وہ اندر کڑھتی رہی اپنا زہر پھیلاتی رہی اور مجھے خبر ہی نہیں ہوئی۔۔۔ اب تسلیم کرنا اور آگے بڑھنا آسان نہیں لگتا ہے۔۔۔ دل دماغ اڑی کرتا ہے۔۔۔۔ مگر یہ بھی جانتا ہوں اس سے اذیت اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملنا۔۔۔ سکون تو کسی صورت نہیں ملنا۔۔۔۔ بابا جی نے مسکرا کر میرے سر ہاتھ پھیرا اور کہا پتر سکون کا تو بس ایک ہی راستہ ہے تسلیم کر لو اور معافی مانگ لو یا دے دو۔۔۔۔ وگرنہ یونہی جان سولی پر لٹکتی رہے گی۔۔۔۔ پھر غصہ بھی آنا۔۔۔ اور ملامت بھی ہونی مگر ہاتھ خالی رہنا۔۔۔۔۔ پتر نجات کا اک ہی راستہ اندر لگی ماضی کی گرہ کو اب کھول دو اور آگے بڑھ جاو۔۔۔۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔