جب جامعہ گجرات کے ریڈر کلب کی طرف سے مطالعہ کی افادیت اور تحریر میں اسکی اہمیت پر مضمون لکھنے کا کہا جاتا ہے تو مجھے سہیل وڑایچ، جاوید چوہدری یاد آ جاتے ہیں اور پھر ان کا زمین سے آسمان تک کا پورا سفر میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر کی طرح پیش کر دیا جاتا ہے۔ ۔ اور میں سوچنے لگ جاتی ہوں ایک روایتی خاندان، روایتی طرز زندگی رکھنے والے جاوید چوہدری، جنہیں نہ ہی پیدائشی طور پر اعلی پڑھا لکھا ادبی گھرانہ ملا اور نہ ہی انہوں نے کسی ہائی فائی ادارے سے تعلیم حاصل کی، مشکل سے کالج پہنچے اور ہاں ماسٹر بہت اچھے نمبروں سے کیا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے ایک گاؤں کے چوہدری کو پورے ملک میں اس قدر شہرت دلائی کہ آج اس کے الفاظ سونے کے دام بکتے ہیں۔ وہ کیا چیز تھی جس نے سہیل وڑایچ کو ایک عام طرز گفتگو رکھنے، عام سا لہجہ ہونے کے باوجود اس قدر مقبولیت دلائی کہ آج دنیا اس سے ملنے کےلیے پہلے وقت لیتی ہے۔ ۔ ۔ وہ چیز ہے علم جو انہوں نے مسلسل اور خوب مطالعے سے حاصل کیا۔ اگر آپ کامیابی حاصل کرنے والے حضرات سے ان کی عادتوں کے متعلق پوچھیں گے تو ان میں آپ کو مطالعہ کی عادت ضرور ملے گی اور اس عادت نے ان کی ترقی کی راہ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہو گا اور وہ آج بھی مطالعے سے اتنی ہی لگن رکھتے ہونگے حالانکہ اب وہ خود اپنے اندر ایک خزانہ رکھتے ہیں۔
کتب بینی یا مطالعہ کرنا روح کی غذا اور قوموں کی ترقی کا راز ہے۔ علم انسان کا امتیاز ہی نہیں بلکے اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے اور اس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے، یہی وہ چیز جو انسان اور حیوان میں فرق کرتی ہے اور اگر یہ کہہ لیا جائے کہ مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اگرانسان صرف سکول کالج کی تعلیم کو ہی مکمل سمجھے اور صرف اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے تو اس کی سوچ سمجھ کا دائرہ بالکل سمٹ کر رہ جائے گا۔ مطالعہ انسان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ مطالعہ ہی کا کمال ہے کہ انسان اس کی مدد سے جب چاہے اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتا ہے اور اپنے سوچنے سمجھنے کی نظریے کو بہتر کر سکتا ہے، اسے وسعت عطا کر سکتا ہے۔
اگر آپ نے موٹیویشنل سپیکرز کو سنا ہو تو وہ خود اعتمادی کی بحالی کے لئے ضرور مشورہ دیتے ہیں کہ آپ مطالعہ کیا کریں، اپنے علم کو بڑھائیں کیونکہ وہ جانتے ہیں یہ علم ہی ہے جو انسان کو خود اعتمادی عطا کرتا ہے، اس کے یقین کو بڑھاتا ہے اور اس کے ذہن کو کشادہ کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے دس سال پہلے مجھ میں کس قدر خود اعتمادی کی کمی تھی، کسی سے ایک منٹ بات کرنا کس قدر مشکل تھا مگر یہ کتابیں ہی تھیں جو میری پہلی دوست بنی اور جنہوں نے نہ صرف میرے علم میں اضافہ کیا بلکہ خود پر میرے یقین کو بھی بڑھایا اور میری صلاحیتوں کو بھی نکھارا۔ میرے لیے کتابیں کسی خزانے سے کم نہیں ہیں اسی طرح میری بہترین شاپنگ وہ ہوتی ہے جب مجھے کتاب خریدنے کو ملتی ہے۔ کتاب بیٹھے بیٹھے آپ کو دنیا جہاں کی سیر کرا دیتی ہے آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہر چیز سکرین کی محتاج ہو گئی ہے وہاں کتاب بھی نظر انداز ہوئی ہے مگر سائنس نے اس بات کو دعوے سے ثابت کیا ہے کہ سکرین دیکھنے کی نسبت کتاب پڑھنے سے انسانی دماغ تین گنا زیادہ تیز کام کرتا ہے۔ ۔ کسی مفکر کا کہنا ہے کہ " کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ، حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور عملی تجربانی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے۔"
اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کونسی سی کتابیں پڑھنی چاہیے۔ کتاب کا چناو بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے ضروری ہے کہ اچھی کتاب کا انتخاب کیا جائے جو آپ کی سوچ اور نظریہ کو سنوار سکے اور اس لیے اساتذہ اور ایسے لوگوں سے راہنمائی لینی چاہیے اور جو اس راہ کے پرانے مسافر ہوں۔ ۔ کیونکہ جیسے لکھ لکھ کر لکھنا آتا ہے اسی طرح پڑھ پڑھ کر پڑھنے کا ڈھنگ آتا ہے اور اگر آپ اس راہ کے نئے مسافر ہیں اور اپنے اندر مطالعہ کی عادت پروان چڑھانا چاہتے تو بہتر ہے آپ آسان اور سادہ کتاب یا موضوع سے آغاز کریں اور بےشک روز کا ایک صفحہ پڑھیں مگر روز پڑھیں تاکہ آپ کو اس سفر میں اکتاہٹ بھی نہ ہو اور عادت بھی بن جائے، جیسے آپ قاسم علی شاہ کی کتاب اپنی تلاش، بڑے منزل کے مسافر سے آغاز لے سکتے ہیں۔ ۔ اچھی کتاب اور اچھی موسیقی اگر کچھ دیر کےلیے مل جائے تو ہر غم بلا کہیں دور بھاگ جاتا ہے۔
تحریر کے میدان میں مطالعہ :
شورش کا کہنا تھا کہ "کسی مقرر کا بلامطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسا بہار کے بغیر بسنت منانا، یالو، میں پتنگ اڑانا" یہ بات تو ایک مقرر کےلیے کہی گئی تھی لیکن ٹھیک یہی صورت ایک قلم کار کی بھی ہے تو یہ واضح رہے کہ آپ کسی چیز کا علم رکھے بغیر اس پر ایک لائن بھی نہیں لکھ سکتے ہیں۔ ۔ اگر آپ نے کمپیوٹر پر مضمون لکھنا ہے تو لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ کمپیوٹر کے بارے میں تھوڑا علم رکھتے ہوں وگرنہ ایک لفظ لکھنا بھی بہت مشکل ہے۔ جس طرح ہمیں زندہ رہنے کے لئے کھانا پینے اور سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح تحریر کے میدان میں مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم روانی سے لکھ سکیں تو اس بحر میں غوطہ خوری کرکے اسی میں اپنی دنیا بسانا ہوگی اور کم ہمتی سستی اور احساس کمتری کو پرے پھینکنا ہوگا۔ یہ مطالعہ ہی ہے جو انسان کو علم کی عظیم منزل تک لے جاتی ہے اور مطالعہ کا چشمہ پیاسی روحوں کو ہمیشہ علمی آب حیات سے سیراب کرتا ہے۔ مجھے باقاعدہ سے کالم لکھتے ہوئے کوئی ڈیڑھ سال ہو گیا ہے، مگر جب مجھے کوئی کالم لکھنا ہوتا ہے تو پہلے اس موضوع سے متعلق کوئی چار پانچ مضمون پڑھنے پڑتے ہیں تب جا کر کوئی مواد جمع ہوتا جسے تحریر کیا جا سکے۔ یہ یونیورسٹی آف گجرات کی ہی کرم نوازی ہے کہ مجھے سہیل وڑایچ سے ملاقات اور بات کرنے کا موقع ملا، میں نے ان سے پوچھا سر ڈیڑھ سال سے باقاعدہ لکھ رہی ہوں پر ابھی بات کوئی نہیں بنی ہے تو انہوں نے جو کہا وہ میری پوری زندگی کےلیے بہت بڑا درس تھا۔ کہنے لگے میں نے 1987 میں جرنلزم کا حصہ بنا اور 2017 میں، میں نے کالم لکھنا شروع کیا اس سے پہلے میں نے صرف دوسروں کو پڑھا ہے۔ یہ وہ بندہ کہ رہا ہے جو ہمارے نزدیک علم کا خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ تحریر کےلیے کتنے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔