1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. نگہبان

نگہبان

مجھے بچپن سے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ مرد کو ایک درجہ افضل کیوں بنایا گیا ہے۔ ایسی کیا بات ہے اس میں۔۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ بات میرے دماغ میں سوالات کا بھونچال مچا دیتی تھی اور پھر کیوں کیوں کی صدائیں مجھے ہر طرف سنائی دیتیں۔۔ یوں یہ چیز میرے فوکس میں رہی ہے جہاں میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ میں ایسے تمام رویوں کا مشاہدہ کروں اور اس پر غور کروں جو کسی طور پر میرے سوالات کو جلا بخشیں۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا نے مرد کو نگہبان بنایا ہے۔ کوئی مسلمان اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ مگر جب ہم اسکی دلیل دیتے ہیں تو ہم صرف ایک چیز پر فوکس کرتے ہیں اسے ہی دلیل بنا کر پیش کرتے۔ وہ یہ کہ اللہ نے اسے جسمانی طور پر مضبوط بنایا ہے اور وہ باہر جاتا ہے محنت مزدوری کر کے کماتا ہے گھر والوں کو پالتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اور یہی ہوا اب چونکہ وہ کماتا تھا اور اسے کہا بھی گیا کہ وہ ایک درجہ افضل ہے تو اس نے عورت کو کم تر سمجھنا شروع کر دیا اسے بےعقل جانا کہ یہ عورت تو بوجھ ہے۔ گھر بیٹھ کر روٹیاں توڑتی ہے۔ کرتی کیا ہیں یہ ایک دوسرے کی باتیں کرنے کے سوا۔ اب مرد کے ایک خاص طبقے نے اس سے ضروری معاملات میں بات چیت کرنا بھی چھوڑ دی۔ اسکی رائے کی اہمیت کو فضول جانا جو حق خود ارادیت اسلام نے اسے دی۔ عورت کےلیے یہ ذلت نا قابل قبول رہی اس نے بغاوت شروع کر دی اور اس میں بھی اس کی مدد مردوں کے ایک طبقے نے کی اور وہ اسے گھر سے باہر لے آئے۔ اسے سمجھایا کہ اگر وہ بھی مرد کے شانہ بشانہ کمانا شروع کر دے گی تو وہ عزت دار بن جائے گی۔ پھر اسے بھی اہمیت دی جائے گی۔ ہر کوئی اس کی سنے گا۔ بس پھر عورت بھی میدان میں آ گئی۔ اس نے بھی مردوں جتنا کمانا شروع کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ تاکہ وہ اپنی عزت کو بحال کر سکے۔ اس کے اوپر وہ جو بےعقل اور کاہل ہونے کا ٹیگ تھا وہ اسکے خلاف برسر پیکار ہو گئی۔ مگر مسائل تھے کہ پھر بھی ختم نہیں ہوئے اور وہ جو فرق تھا دونوں میں وہ بھی جوں کا توں موجود ہے۔۔۔

اب ایسے میں کیا کیا جائے تحریک چلائی جائے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ عورت کو اس کے مکمل حقوق نہیں ملتے اس معاشرے میں۔ اس کے لیے آواز بھی اٹھائی جائے گی۔ مگر پہلے ہمیں یہ identify کرنا ہے عورت کے حقوق کونسے ہیں۔ سب سے پہلا حق تو انسان ہونے کا ہے جس پر کوئی compromise نہیں ہوسکتا۔ اور انسان ہونے کے ناتے اسے وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں وہ ایک انسان کے ہوتے ہیں مگر اس میں اگر مردوں سے مقابلہ شروع کر دیا جائے تو مسئلے بڑھیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عورت کا مرد سے کوئی مقابلہ نہیں وہ اس سے بہت سے معاملات میں بہت بالاتر ہے۔ اسکی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور مرد کی اپنی۔ مگر ابن آدم کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بھی بنت آدم ہے اور اسے طاقت اس لیے نہیں دی گئی کہ وہ عورت کو مارے پیٹے اس کے حقوق سلب کرے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے اسے نگہبان بنایا ہے تو، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے اسے طاقت بھی اسی لیے دی گئی کہ وہ اسے اسکی نگہبانی کےلیے استعمال کرے نہ کہ اسی کے خلاف۔

مرد صرف اس لیے ہی نگہبان نہیں کہ وہ کماتا ہے اور پیٹ پالتا ہے۔ وہ تو عورت بھی کرسکتی ہے۔ اسے طاقت نگہبانی سب اس لیے دی گئی وہ ایک خاندان گھر کے structure کو قائم دائم رکھے اس میں موجودہ رشتوں کے درمیان توازن رکھے۔ مگر افسوس کہ ہم نے مرد کو یہ ذمہ داری کبھی بتائی ہی نہیں۔ تبھی وہ کبھی ماں کے ہاتھ کا کھلونا بنتا ہے تو کبھی بیوی کے۔ عورتیں ظاہر ہے ایک جیسے جذبات رکھتی ہیں تو آپس میں ناچاقیاں بھی ہوں گی اور یہیں تو مرد نے چیزوں کو بکھرنے سے بچانا ہے۔ صرف کمانا ہی اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اپنی عورت کی عزت کی حفاظت، اسکے حقوق کی حفاظت، اسکی خواہشات کا احترام۔ اسکی راہنمائی سب مرد کی ذمہ داری ہے تبھی تو وہ نگہبان ہے۔ مجھے نہیں لگتا کوئی عورت شوق سے باہر معاشرے میں رلنے کےلیے نکلتی ہے۔ پیچھے کے حالات ایسے ہوتے رویے ایسے ہوتے جو اسے مجبور کرتے ہیں۔ وہ اس عزت اور اہمیت کی تلاش میں باہر ماری ماری پھرتی ہے جب آپ اسے گھر میں وہ سب مہیا نہیں کر پاتے۔ جب اسے گھر سے سپورٹ نہیں ملتی تو پھر وہ باہر سے ہی سپورٹ ڈھونڈتی ہے اور دھوکہ کھا جاتی ہے۔

میرا یہ ماننا ہے کہ معاشرے کی بقا کےلیے مرد کا تھوڑا بہت غیرت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ اسے اتنا کھلا ذہن بھی نہیں رکھنا چاہیے کہ وہ غیرت کو بلکل ہی بالائےطاق رکھ دے۔ مرد کی غیرت کا خاتمہ دراصل معاشرے کا خاتمہ ہے۔

چونکہ خدا نے مرد کو نگہبان بنایا ہے تو وہ نگہبان ہے مگر غیرت یہ نہیں کہ آپ اپنی گھر کی عورتوں کو قید کر دیں۔ ان کو پابندیوں میں جھکڑ دیں۔ ان کا جینا محال کر دیں، ان کی حق تلفی کریں یا انہیں غیرت کے نام قتل کریں۔ جو حقوق اللہ نے دیئے ہیں ان پر آپ سوال نہیں اٹھا سکتے۔

غیرت یہ ہے کہ اپنی گھر عورتوں کو معاشرے کی آلودگی سے بچائیں اور غیرت یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ آپ باہر نکلیں تو کسی عورت پر نظر پڑنے پر آپ کی آنکھ جھکنے کا تقاضا کرے۔ غیرت یہ بھی آپ ان boundaries کا جو اس مذہب اور معاشرے کی قائم کردہ ہیں جنہیں آپ مانتے ہیں۔ آپ انکی پاسداری کریں اور کروائیں۔

نہ کہ آپ یہ دلیل دیں کہ چونکہ میں ساری رات باہر گھومتا پھرتا ہوں تو میری بہن کو بھی یہ حق ہونا چاہئے۔ میں تو باہر لڑکیوں کے ساتھ ہر وقت گھومتا پھرتا ہوں تو اب میری بہن بھی لڑکوں کے ساتھ گھوم پھر سکتی۔ میں سگریٹ نوشی کرتا ہوں تو اسے بھی کرنی چاہیے۔

آپ غلط ہیں تو آپ کی غیرت کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ مجھے خود کو درست کرنا ہے اور میں ان اخلاقی اقدار کو صرف اپنی خوشی کےلیے توڑ نہیں سکتا جس پر معاشرہ قائم ہے کیونکہ معاشروں کو قائم رکھنے والی اقدار ہوتی ہیں۔ جن معاشروں میں ان کو اہمیت نہیں دی جاتی وہ معاشرے قائم نہیں رہتے۔ نہ کہ دوسروں کو بھی آپ اسی راہ پر لے آئیں۔

آپ جس معاشرے یا مذہب کو مانتے ہیں یہ معیار وہ تعین کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اخلاقی اقدار جنہیں وہ معاشرے بھی قبول کرتے ہیں جہاں مذہب اور خدا کا تصور بھی نہیں۔ آپ ایگری کریں یا نہ کریں مگر یقین کیجئے۔ تاریخ اٹھا لیجیے

معاشرے بدلتے ہیں۔۔ مذہب بدلتے ہیں۔۔ علاقے بدلتے ہیں۔۔ اخلاقیات نہیں بدلتیں۔۔

اخلاقیات کے معاملے میں میں نے اکثر کافر کو بھی ماننے والوں سے بڑھ کر پایا ہے۔۔

آپ امریکہ یورپ کو بھی پڑھ لیجیے اور پھر وہاں ان خاندانوں کا بھی مشاہدہ کیجئے ان سے بات چیت کیجئے۔۔ جو خاندان قائم آباد ہیں وہ اپنی اعلی روایات کی وجہ سے ہیں جو وہ صدیوں سے مان رہے ہیں۔

مگر افسوس یہ ہے کہ ہماری غیرت کا پیمانہ صرف کپڑوں پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔۔ اور

آپ مرد کو یہ کہہ کر رہا نہیں کرسکتے کہ عورت تو باہر نکل رہی ہے آدھے کپڑے پہن رہی ہے۔ مرد کا خود پر قابو پانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا عورت کا ہے۔ شاید عورت سے بھی زیادہ کیونکہ اسے معاشرہ سنبھالنا ہے۔ اور آپ ہر چیز کا الزام عورت کو نہیں دے سکتا آپ کو اپنا ذمہ دار خود بھی بننا ہے۔ مرد پر بھی لازم ہے کہ وہ نگاہیں نیچی رکھے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔